ختم نبوت کے حوالے سے پاکستان میں کام کرنیوالے تمام ادارئے تنظیمیں اور شخصیات بلاشبہ مبارکباد اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں۔بنیادی طور پر یہ ہمارے دلوں پر حملہ ہے ہمارے ایمان پر حملہ ہے اسلام کے مخالفین نے منظم منصوبہ بندی اور سازش کے تحت اس حوالے سے یہاں بحث شروع کی اور پھر ایسے لوگوں کو کھڑا کیا جو قرآن کی آیات اور نبی کریمؐ کی احادیث پر نعوذباللہ دلائل دیتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ بات طے ہے کہ اس معاملے میں دلیل بھی طلب نہیں کی جاسکتی یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ نبی کریمﷺخاتم النبین ہیںمغرب بھی ہمارے ایمان پر حملہ کرتا ہے اور ہمارے درمیان بھی ایسے لوگ موجود ہیں ۔اللہ ہم سب کو بنیادی عقائد میں آخری سانس تک پختگی عطا فرمائے۔مولانا محمد زاہد انور تلخیص البیان میں لکھتے ہیں
ایمان ، عقائد ، ہدایت اور اعمالِ صالح و صداقت کے جتنے اصول انسانوں کو حاصل ہوئے وہ ہر نبی و رسول یا مصلح وقت کی معرفت ملے ، یہ سلسلۂ خیر و صداقت بذریعہ وحی حضرت آدمؑ سے خاتم الانبیا ء ﷺ تک چلتا رہا یہاں تک کہ امام الانبیا ء ﷺ کو خاتم النبین بنا کر جب مبعوث فرمایا گیا تو آپ ؐ کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ ختم فرما کر اسلام کو آخری دینِ کامل بنانے کا اعلان فرمایا گیا :
(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا )
ترجمہ: ’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل بنا دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو ہی بطورِ دین چن لیا۔‘‘ (سورۃ المائدہ آیت نمبر ۳) عقیدہِ ختم نبوت امتِ مسلمہ کا اجتماع عقیدہ ہے جس پر شروع سے لے کر آج تک کسی کا اختلاف نہیںاور دیگر فتنوں کی طرح ایک شیطانی فتنہ انکار ختم نبوت بھی وقتاً فوقتاً سر اٹھاتا رہا ہے۔ آپؐ کے دورمیں ہی مسیلمہ کذّاب نے دعویٰ نبوت کر دیا تھا۔ جس کی سرکوبی اور ختم نبوت کی حفاظت کے لیے حضرات صحابہ کرامؓ نے لازوال قربانیوں کی ا یسی داستان رقم کی جو اب تاریخِ حق کے انمول باب کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انیسویں صدی کی ابتداء میں نیا فتنہ ’’قادیانیت‘‘ کی بدنما صورت میں نمودار ہوا جس کی پشت پناہی منظم طور پر ایک بڑی سلطنت (حکومتِ برطانیہ) نے سرکاری سطح پر کی بلکہ یہ شجرہ فاسد انہی کا لگایا ہوا تھا اور اب تک دنیا کی ظاہری بڑی طاقتور حکومتوں (امریکہ ، برطانیہ ، یورپ اور اسرائیل) کے زیر نگرانی وہ فتنہ اپنی حشر سامانیوں سمیت کم و بیش اپنا وجود لیے ہوئے ہے اگرچہ ہمارے اکابر علماء و عوام نے اس فتنہ کی سرکوبی میں پوری جان لگائی ہے اور مثالی تحریک کے ذریعے قانونی طور پر اسے غیر مسلم اقلیت قرار دے رکھا ہے اور عملی طور پر بھی اس کا تعاقب جاری رکھا ہے۔ جس پر وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں تاہم ختمِ نبوت میں ڈاکہ زنی کی چھوٹی بڑی کوششیں وقتاً فوقتاً جاری رہتی ہیں واضح رہے کہ قرآن مقدس میں عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے بڑی وضاحت کے ساتھ (صریح الفاظ میں) اس کو بیان کیا گیا ہے سب سے پہلے تو سورۃ البقرہ کی ابتدائی آیات میں اس عقیدۂ حق (عقیدہ ختم نبوت) کو اُجاگرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ :
(والذین یومنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون )
ترجمہ: ’’مومن لوگ وہ ہیں جو ایمان لائے اس پر جو کچھ اتارا گیا آپ ؐ کی طرف اور جو اس سے قبل اُتارا گیا اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘ (سورۃ القرہ آیت نمبر ۴) ۔ اس آیت میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا کہ آپؐ کے بعد کچھ نہیں اتارا جائے گا (اور نبوت کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے)۔ کوئی ظِلّی بَر وزی نبی کی اصطلاح قرآن کریم کی کسی آیت اور اتنے وسیع ذخیرہ و حدیث میں ایک بھی اشارہ آپ کو نہیں مل سکتا جب کہ اس عقیدہ کی مزید صراحت واضح الفاظ میں سورۃ احزاب آیت نمبر ۰۴
(ماکان محمد ابا احد من رجا لکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین )
ترجمہ: ’’اورمحمد ؐ تمہیں سے کسی آدمی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ تو اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں‘‘۔ (یہاں صاف طور پر اس امر کو حتمی طور پر بیان کر دیا گیا ہے کہ امام الانبیاء ﷺ کی نبوت آخری ہے اور تمام انبیائؑ و رسولوں پر آپ مہر بن کر آئے ہیں۔ اب سلسلہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ عقیدہ ختم نبوت امتِ مسلمہ کے بنیادی اعتقادات میں سے ہے۔ کیونکہ جس شخص نے کلمہ پڑھا ہے
(لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) تو اس کو قرآن کی صداقت پر بھی ایمان لانا ہو گا کہ محمد ؐ فقط رسول اللہ ہی نہیں بلکہ خاتم النبیین بھی ہیں۔ گویا جہاں بھی محمد رسول اللہ ہونے کا اقرار ہے وہاں خاتم النبین ﷺ ہونے کااقرار بھی لازم ہے تبھی کلمۂ توحید اور رسالت کا اعتراف بنتا ہے ورنہ نہیں۔ اب یہ ظلی بروزی نبوت کی خود ساختہ اصطلاح خالص شیطان کارستانی ہے۔ جس کا اظہار بھی فقط اسی شیطانی ٹولہ نے کیا ہے اس موضوع (ختم نبوت پر) اکابر علماء کرام نے بڑی ضخیم جلدوں میں مدلل حقائق کے ساتھ وضاحتی کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ جس کا جواب اس مرتد ٹولے کے پاس نہیں ہے۔ بس گھسی پٹی اور رٹی رٹائی دجالی گفتگو سننے کو ملتی ہے۔ صحیح بخاری ، صحیح مسلم وغیرہ تمام کتب حدیث میں حضرت ابوہریرہؓ کی یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ منقول ہے کہ خاتم الانبیاء ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اُس شخص جیسی ہے جس نے ایک مکان بنایا ہوا اور اس کو خوب مضبوط اور مزید کیا ہو مگر اس کے ایک کونہ میں (دیوار میں) ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ہو تو لوگ اس کو دیکھنے کے لیے چلیں پھریں اور تعمیر کو خوب اچھا قرار دیں مگر ساتھ یہ بھی کہیں کہ یہ ایک اینٹ کی جگہ کیوں پُر نہ کی گئی (جس کی وجہ سے یہ عمارت ناقص نظر آ رہی ہے)۔ آپ ؐ نے فرمایا میں وہی اینٹ ہوں اور خاتم النبین ﷺ ہوں اسی طرح دوسری حدیث میں (جو امام بخاری امام مسلم / امام احمد نے حضرت ابوہریرہ ؓ کے حوالے سے ہے) منقول ہے کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’بنی اسرائیل کی سیاست اور انتظام خود انبیاء کے ہاتھ میں تھا جب ایک نبی کی وفات ہو جاتی تو دوسرا نبی اس کی جگہ لے لیتا تھا، اور اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا خود امام الانبیاء کی زبان مبارک سے صاف الفاظ کے ساتھ وضاحت کے بعد کسی ظلی بروزی نبوت کی خود ساختہ اصطلاح کی ادنیٰ سی گنجائش باقی نہیں ہو سکتی۔ آپ ؐ نے مزید ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت میرے بعد(ہر لحاظ سے) منقطع (ختم ہو چکی ، میرے بعد نہ تو کوئی رسول آئے گا نہ ہی کوئی نبی۔ امام غزالی نے اس کی مزیدوضاحت کے لے بڑا جامع تبصرہ فرمایا ہے کہ ’’بے شک اُمت نے اس لفظ یعنی (انا خاتم النبیین ﷺ لا نبی بعدی) سے اور قرائنِ احوال سے بااجماع یہ سمجھا ہے کہ آپ کے بعد ابد تک نہ تو کوئی نبی ہو گا اور نہ ہی کوئی رسول اور یہ کہ نہ اس میں کوئی تاویل چل سکتی ہے اور نہ ہی کوئی تخصیص (الاقتصاد فی الاعتقاد)۔ ہم اپنے اس مختصر مضمون کا اختتام حضرت قاضی عیاض کے ان جملوں پر مناسب سمجھتے ہیں جو انہوں نے اپنی کتاب ’’شفا‘‘ میں ختم نبوت کی بحث میں ارشاد فرمایا (بحوالہ معارف القرآن جلد ہفتم) کہ ’’امت نے اجماع کیا ہے کہ اس کلام کو اپنے ظاہر پرمحمول کیا جائے اور اس پر (اجماع کیا ہے کہ) اس آیت کا نفسِ مفہوم ہی مراد ہے (بغیر کسی تاویل یا تخصیص کے) اس لیے ان تمام فرقوں کے کفر میں کوئی شک نہیں (جو کسی مدعی نبوت کی پیروی کریں) بلکہ ان کا کفر قطعی طور سے اجماع امت اور نقل یعنی کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ متقدمین اہلِ علم و سلف کے یہ جامع اقوال ایک قاعدہ اور قانون کا درجہ رکھتے ہیں کہ جب بھی کوئی کذّاب و دجال جعلی نبوت کا ڈرامہ رچائے تو اس کے سر پر انہی حقائق کی خاک ڈالی جائے اور روز روشن کی طرح واضح دلائل کے نوک دار پتھروں سے ان ڈاکوئوں کو سنگسار کیا جائے۔ اللہ ہمیں صراطِ مستقیم پر استقامت نصیب فرمائے اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں اپنی جانیں اور زندگیاں کھپانے والے خوش نصیبوں کی نصرت کی توفیق سے نوازے (اللھم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ و ارنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ)۔
جعلی نبوت کے حوالے اہم ترین انکشافی حقیقت: جعلی نبوت ا یک ا یسا ناگفتہ بہ المیہ ہے کہ یہ گھنائونا دھندا (بدترین گمراہی پر مبنی نظریاتی و اعتقادی کمینگی) پہلی امتوں میں (باوجود تمام تر نظریاتی تحریفات کے) کہیں نہیں سنایا پایا گیا۔ یہود و نصاریٰ نے ہرچند کہ بہت کچھ تحریفات لفظ و معنوی کے خطرناک جال بنے مگر جرأت کرنے کا انہیں حوصلہ پھر بھی نہ ہو سکا کہ وہ جعلی (ظلی یا بروزی) نبوت کا دعویٰ کر لیتے۔ حضرت عیسیؑ کے رفعِ آسمانی کے بعد طویل درمیانی عرصہ میں (سینکڑوں سال کے وقفہ کے باوجود) انہیں یہ گمراہ دھندہ کرنے کی نہیں سوجھی۔ اللہ تعالیٰ کے نظامِ ابتلاء کی حکمت ہمارے ادراک و شعور سے بالاتر ہے کہ خاتم الانبیائﷺ کے آخری دور میں دو کذابوں (مسیلمہ کذّاب ، اسود عنسی) نے شیطانی فکر کو اس حوالے سے پروان چڑھانے کی کوشش کی تو خطرناک انجام سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد کئی دیگر کذّاب (جعلی نبی) آئے۔ ہر ایک کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے (اُس کی نشاندہی بھی خود امام الانبیاء ﷺ نے فرما دی تھی)۔ اب بھی یہود و نصاریٰ کو آمد مسیح موعود کے حوالے سے اپنے اپنے اعتقادی نظریات کے موجود ہونے کے باوجود ایسی گستاخانہ جرأت اب تک نہیں ہو سکی کہ وہ بھی تاویلی درجہ میں کسی ظلی ، بروزی کی چھوٹی سے چھوٹی کھڑکی کھول لیتے۔ افسوس کہ اس مکروہ دھندہ (جعلی نبوت اور نظریاتی و اعتقادی گمراہی) کی کالک اسی آخری اُمت کے بدفطرت اور باطل الفکر مرتدین لوگوں کے مقدر میں لکھی تھی کہ وہ نئے نئے عنوانات سے جعلی نبوت کے مکروہ دھندے کا کاروبار کھولتے رہتے ہیں (معاذ اللہ)۔ یہ بھی انہی فتنوں کا حصہ ہے جس کی خبر خود خاتم الانبیا ء ﷺ دے گئے۔ فتنے تو بہرحال فتنے ہی ہوتے ہیں، کچھ جلد اور کچھ دیر سے جا کر ختم ہوتے ہیں اس لیے یہ اشکال ذہن میں نہ لایا جائے کہ قادیانی فتنہ کیوں طوالت اختیار کر گیا اور جلد اپنے منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچ گیا۔ فتنوں کی شکل بدلتی رہے گی ، عنوان بدلتے رہیں گے مگر یادرکھیں آخری دور (قربِ قیامت والا) فتنوں سے لبریز دور کہلاتا ہے ، اس لیے فتنوں سے دور رہنے کا سب سے صاب راستہ یہی ہے کہ اعمال صالحہ کی تربیت حاصل کرتے رہیں تاکہ باطل الفکر لوگوں کی نظریاتی گمراہی سے محفوظ رہ سکیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38