بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے چہرے کا ان دنوں آپ اگر عمیق نظری سے جائزہ لیں تو اس کی صورت کے تناظر میں یہ اندازہ لگانا کہ اس کی سفید داڑھی کے بال پہلے کی نسبت کس شدت سے بڑھ رہے ہیں قطعی دشوار نہیں ہو گا۔ آپ یقیناً سوچیں گے کہ مودی کی سفید داڑھی کو اتنا قریب سے دیکھنے کی مجھے اچانک ضرورت آخر کیوں محسوس ہوئی ہے؟ ضرورت اس لئے! کہ بھارتی وزیراعظم اپنی سفید داڑھی کے حوالے سے اپنی صحت اور فٹنس کے بارے میں اپنی جنتا اور RSS اراکین کو آجکل یہ باور کرانے میں کوشاں ہیں کہ ان کی اس قابل رشک صحت کا ایک راز متوازن غذا اور مشروبات (جس میں گائے کا سیال بھی شاید شامل ہو) کا بھرپور استعمال تو ہے ہی مگر اس صحت کا سب سے اہم راز بھارتی عوام کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر بھاری وزن میں دی گئیں ایک کلو وہ ’’گالیاں‘‘ جن سے ان کی شخصیت میں مزید نکھار پیدا ہو رہا ہے۔ ’’1 کلو گالیوں‘‘ کا وزن مودی نے کس ترازو میں کیا؟ یہ پڑھ کر ابتدا میں حیرت مجھے بھی ہوئی مگر بھارتی وزیراعظم کی زبان سے ادا ہونے والی اس ’’سیاسی دروغ گوئی‘‘ کہ بعد اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑا کہ جس وزیراعظم کی جنتا بھوک و افلاس کا شکار ہو جو شدت سے پھیلے COVID-19 سے ہونے والی ریکارڈ توڑ انسانی ہلاکتوں کا اقرار کر رہی ہو جس ریاست میں بھوکے اور آوارہ کتوں کی تعداد 30 ملین سے تجاوز کر چکی ہو۔ وہاں کی عوام کی دی گئی گالیوں کو مردہ ضمیر کے مخصوص ترازو پر تولنا آخر کونسا مشکل کام ہے۔ سوچا اس موضوع پر کیوں نہ کسی برطانوی شہری سے بھی بات کی جائے۔ چنانچہ اس موضوع پر اگلے روز اپنے ایک سابق بیورو کریٹ گورے دوست سے جب میں نے تبادلہ خیال کیا تو وہ بے چارہ بھی سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
عجیب شخص ہے یہ وزیراعظم! وہ بولا Abusive Language کو اپنی صحت کا راز قرار دیتے ہوئے اسے ’’ترازو خیال‘‘ پر تولنا کسی بھی صحت مند یا تندرست شخص کی سوچ نہیں ہو سکتی۔ سوچ ہو سکتی ہے۔ میں نے دوست کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
جس لیڈر کا ذہن‘ فکرو نظر‘ ضمیر اور ذہن تک مردہ ہو جائے۔ جس ریاست میں بے گناہ انسانوں کا قتل عام روزانہ کا معمول ہو۔ جہاں ہر 10 منٹ بعد زیادتی کا ایک واقعہ رونما ہوتا ہو۔جہاں انسانی حقوق کی کھلے عام پامالی ہوتی ہو۔ جہاں سچ بولنا‘ سچ لکھنا اور سچ کہنا جرم ہو اور جہاں سیکولر کے نام پر بربریت ہو وہاں عوامی گالیوں کو Fall Back کے ترازو پر تولنے میں دشواری کیسی؟ Absolutely Right دوست بولا۔ اور پھر قدرے توقف کے بعد اس نے خود ہی بھارت میں انسانی حقوق کی کھلے عام ہونے والی خلاف ورزیوں اور حال ہی میں Amnesty International کے دفاتر کو زبردستی بند کرنے اور دفاتر کے اکائونٹس کو جبری طور پر منجمد کرنے کے حوالہ سے مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے بھارتی افواج کے مظالم پر بات چھیڑ دی۔ دوست نے موقر روزنامہ ’’گارڈین‘‘ کے خارجی امور کے معروف تجزیہ نگار ’’سائمن ٹسڈل‘‘ کے حال ہی میں شائع ہونے والے آرٹیکل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار کی جانب سے ایمنسٹی دفاتر بند کرنے کی بنیادی وجہ ہی انسانی حقوق کی پامالی کو بے نقاب کرنے کی سزا ہے جبکہ مظلوم کشمیریوں سمیت دیگر اقلیتوں‘ صحافیوں اور وکلاء کو ہراساں کرنے کا سلسلہ ایک طویل عرصہ سے جاری تھا۔ جسے ٹسڈل نے ایک بے باک تجزیہ نگار ہونے کے ناطے اپنے مضمون میں انتہائی خوبصورتی سے بیان کیاہے۔
کشمیریوں اور بھارتی مسلمانوں پر بھارتی تسلط کا ذکر کرتے ہوئے ٹسڈل کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ہاف ملین بھارتی افواج (اب یہ تعداد ایک ملین ہوچکی ہے) بھجوا کر نہتے کشمیریوں سے ظالمانہ سلوک روا رکھا ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگا کر انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا مسلمانوں کو آبادی والے علاقوں سے الگ تھلگ رکھنا اور مسلمانوں کو محض مخصوص ماحول میں زندگی گزارنے تک محدود رکھنے کے وہ انکشافات ہیں جن کی بناء پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دفاتر بند اور ان کے اکائونٹس منجمد کر دیئے گئے ہیں۔
ایمنسٹی کے مطابق شہروں میں ہونے والے نسلی فسادات میں اب تک درجنوں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے مگر گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہونے والی ان اموات پر دہلی پولیس کسی بھی ایک واقعہ کی تحقیق نہیں کر پائی جو انتہائی قابل مذمت اقدام ہے۔
ایمنسٹی بچیوں سے زیادتی‘ مسلمانوں سے ہندو غنڈوں کا ناروا سلوک‘ ہنگامہ آرائی اور ہراساں کرنے کے واقعات کو منظر عام پر لا رہی تھی۔ اتر پردیش جہاں ہر 15 منٹ بعد ریپ کا ایک واقعہ رونما ہو رہا ہے منظر عام پر لانے میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں۔ ایسے حالات میں بھارتی سرکار کو کیونکر سیکولر سٹیٹ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ مودی کو اب بھی ایک مضبوط سیاسی شخصیت قرار دے رہا ہے مگر آئندہ 18 روز بعد ہونے والے امریکی انتخابات میں صدارتی امیدوار ’’جو بائیڈن‘‘ اس مرتبہ اگر صدر منتخب ہو گئے تو ان کی بھارتی پالیسیاں مختلف ہوں گی جبکہ Kamala Harris جو ان کی نائب صدر ہوں گی جن کی والدہ مبینہ طور پر بھارتی اور والد جمیکن نژاد تھے کشمیر پر بھارتی پالیسیوں کے خلاف ہیں وہ کہہ چکی ہیں کہ مودی کے گجرات کے وزیراعلیٰ ہونے کے سابق کردار کو ہرگز فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
دوست نے ’’ٹسڈل‘‘ کے تجزیہ پر اچھی خاصی روشنی ڈالی تھی۔ حقیقت میں اس آرٹیکل کو برطانوی سیاسی حلقوں میں خصوصی طور پر پسند کیا گیاہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز اپنی سالگرہ کا کیک تو اسلام آباد میں کاٹا مگر ان کے چاہنے والوں نے دنیا بھر میں خوشیوں کا اظہار کرتے ہوئے ان کی درازی عمر کیلئے جہاں دعائیں مانگیں وہاں لندن میں انصار مدینہ ٹرسٹ کے چیئرمین 86 سالہ الحاج انصار اللہ صدیقی نے خصوصی طور پر فون کر کے مجھے اطلاع دی کہ عمران خان کی درازی عمر کیلئے انہوں نے ایک بکرا ذبح کر کے ان کی درازی عمر کا صدقہ اتارا ہے۔ بزرگوار صدیقی صاحب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان پہلا ایسا سربراہ ہے جو ریاست مدینہ کے قیام میں مخلص ہے اس لئے بحیثیت مسلمان ہم سب کا یہ فرض ہے کہ سیاست سے بالاتر ہو کر پاکستان کو حقیقی اسلامی ریاست بنانے میں اپنے اس وزیراعظم کا بھرپور ساتھ دیں۔ عمران خان کے ایسے صدقے میں آئندہ بھی اتارتا رہوں گا۔ صدیقی صاحب نے کہا۔ اللہ تعالیٰ اسے نظر بد سے محفوظ رکھے۔ یہاں تک لکھ چکا تھا کہ امریکی جریدے فارن پالیسی کی تہلکہ خیز رپورٹ سامنے آ گئی جس میں عالمی دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کو دنیا کا نمبر ون ملک قرار دیا گیا ہے دیکھنا اب یہ ہے کہ مودی کی صحت پر اس خبر کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38