جنرل پرویز مشرف نے جب ممبر بننے کیلئے گریجوایشن کی قدغن لگائی تو احمد محمود Ineligible ہو گئے۔ انہوں نے اپنے حلقے سے ترین کو ممبر قومی اسمبلی بنا دیا۔ ان کے وارے نیارے ہو گئے۔ جب اسکے ذہن رسا کو شوگر مل لگانے کی سوجھی تو احمد محمود کی جمال دین والی میں وسیع و عریض زمین کام آئی۔ احمد محمود کے دادا مخدوم غلام میراں شاہ بہاولپور ریاست کے سب سے بڑے زمیندار تھے۔ ایک ہزار مربع اراضی‘ کہنے کو تو انیس غازی بھی بڑے زمیندار تھے‘ لیکن ان کی زمین کا بیشتر حصہ دریا برد اور سیم زدہ تھا۔ جمال دین والی شوگر ملز کی کوکھ سے کئی اور ملوں نے جنم لیا۔ ایک سے چار ہو گئیں۔ چار دانگ جہانگیر ترین کا طوطی بولنے لگا۔ میں جب بہاولپور میں کمشنر تھا تو جی او آر جنرل عارف حیات کے حکم سے مل سیل کر دی گئی۔ اس کے ذمے کاشتکاروں کے کروڑوں روپے تھے۔ ایک مرتبہ پھر احمد اس کو لیکر میرے پاس آیا۔ میں نے اپنی گارنٹی پر مل کھلوائی۔ میرا استدلال یہ تھا کہ مل کھلے گی نہیں تو کاشتکاروںکو ادائیگی کہاں سے ہوگی۔
13۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ جہانگیر ترین خان صاحب کی حکومت بنوانے میں ممد اور معاون ثابت ہوا ہے۔ وہ ممبران اسمبلی کو پکڑ کر جہاز میں بٹھا کر لایا تو حکومت بنی۔ یہ تاثر صریحاً غلط ہے۔ بالفرض یہ نہ بھی لاتا تو ممبران نے از خود پہنچ جانا تھا۔ گھوڑے بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ سرسبز چرا گاہ کدھر ہے اور ہوائوں کا رخ کس سمت ہے۔ صرف ایک اشارے پر پنجاب اسمبلی کے تمام ممبران منظور وٹو کی جھولی میں آن گرے تھے۔ وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا ہی رہ گیا۔ ویسے بھی علیم خان نے کہا ہے جہاز کرائے پر لینے کیلئے نصف رقم اس نے ادا کی تھی۔ 14۔ اس سے یہ کہنا کہ عمران خان نے احسان فراموشی کی ہے‘ صریحاً غلط ہے۔ عمران خان نے ایک قانونی راندہ درگاہ کومقام اور مرتبہ عطا کیا۔ اس کیلئے ترین کوخان کا ممنون احسان رہنا چاہئے۔ آجکل ترین پر دور ابتلا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کل کلاں پھر حالات سازگار ہو جائیں اور اسے وہی مقام و مرتبہ حاصل ہو جائے۔ وطن عزیز کی سیاست کے عجب رنگ ڈھنگ ہیں۔ لوگوں کا کوچہ اقتدار میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔
15۔ گویا خیرپور سے لیکر ملتان تک ایک ہی خاندان ہے جن پر اقتدار کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ میاں نوازشریف چونکہ ایک طویل عرصہ تک اقتدار میں رہے اس لئے انہوں نے ایک عجیب طرح کا Love-Hate Relation رکھا۔ وہ ان کی اجتماعی قوت سے خائف تھے‘ لیکن بوجہ یکسر نظرانداز بھی نہیں کر سکتے تھے۔ میرے ساتھ بھی ان کے رویئے میں بتدریج سردمہری آتی گئی۔ ستار لالیکا اور صدیق خان کانجو نے ان کے کان بھرے۔ انہیں باور کرایا کہ I Have Got natural Sympthay For The Syeds of Southاسی طرح ہمایوں اختر اور اس کا بھائی بھی دو مختلف پارٹیوں میں ہیں۔ جب تک جنرل مشرف برسراقتدار رہا‘ انہوں نے (ق) لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے جاتے ہی اسے احساس ہوا کہ اب اس تھکی ہوئی پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔ ہمایوں اختر اس وقت تحریک انصاف میں ہیں۔ سرشام ٹی وی ٹاک شوز میں لوگ ان کا خوبصورت چہرہ دیکھتے ہیں۔ چھوٹے بھائی (ن) لیگ میں مشیر تھے۔
………………… (ختم شد)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024