حلقہ ارباب ذوق ادب کی سب سے پرانی فعال تحریک ہے۔ اس ادبی ادارے پہ امن یا جنگ سماج اور سیاست کے ادوار اور ہلڑبازیوں کاکوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا، نہ ہی اس کی کارکردگی کبھی متاثر ہوئی، یہ ادبی ادارہ کسی بھی مذہبی فرقے سے منسلک نہیں ہوا، جس طرح ادب،ثقافت،ورثہ اور روایات پروان چڑھتی ہیں اسی طرح حلقہ ارباب ذوق کی نمو بھی ہوتی رہی ہے۔پیڑ جتنا بوڑھا ہوگا اس کی جڑیں اتنی ہی مضبوط اور سایہ اتنا ہی گھنا ہوگا۔ اس کے نیچے ہونے والے فیصلے اتنے ہی مستند اور انصاف پہ مبنی ہونگے۔ حلقہ ارباب ذوق کو بھی ادب کا ایک بوڑھا شجر کہاجاسکتاہے کیونکہ اس کی تاریخ64سال پرانی ہے ان قارئین کی دلچسپی کیلئے بتاتی چلوں جو نہیں جانتے کہ چند کہانی لکھنے والے جوشیلے نوجوانوں نے ’’بزم داستان گویاں‘‘ کے نام سے انجمن بنائی جن میں شیر محمد اختر، تابش صدیقی اور نسیم حجازی جیسے ادیب جو کسی تعارف کے محتاج نہیں شامل تھے۔29اپریل 1939ء میں اس کی بنیاد رکھی گئی پھر3ستمبر1939اس کا باقاعدہ نام حلقہ ارباب ذوق تجویز کرکے مہر لگادی گئی،کہتے ہیں کہ روشنی کی پہچان اندھیرا بنتاہے اسی طرح حلقہ اربابِ ذوق کی پہچان ترقی پسند تحریک جسے ادبی دنیا میں طوفانی، سیاسی، تعصبانہ تحریک کا نام بھی دیاجاتا تھا۔ اس ترقی پسند تحریک نے سماج کے خارجی عوامل اور زندگی کے عمل کو تیز کردیا تھامگر اس وقت سیاسی اتھل پتھل والا دور چل رہا تھااوراسی کی مطابقت سے ادبی دنیا میں پرسکون دریا کی لہروں پہ ایسی نائو کی ضرورت تھی جس سے قلم کے چپو سے چاند کی کرنیں رقص کرنے لگتیں، لہریں موسیقی ترتیب دیتیں اور ہوا کی سرگوشیاں کہانیاں سنانے لگتیں۔ ایسے میں حلقہ اربابِ ذوق کے قیام نے اس ضرورت کو پورا کردیا۔
1940اور1950کا عشرہ حلقہ اربابِ ذوق کا سنہری دور تھا کیونکہ لاطینی امریکہ، ایشیا اور افریقہ کے محکوم عوام تک حلقہ اربابِ ذوق کے ذریعے شعور اور فکر کی نئی روشنی پہنچ رہی تھی،1936 میں ترقی پسند تحریک ایسا ادبی محاذ تھا جس کے اصول وضوابط انتہائی سخت اور پارٹی کی پیروی کرنے پہ شدید زور دیا جاتا مگر انسان کے اندر بغاوت کا جذبہ اس کے ساتھ ہی جنم لیتا ہے تویہاں بھی اصول سے ٹکرانے والے باغی موجود تھے ایسے باغیوں اور امن پسند محبت کرنے والے ادب شناس اور ادب دوستوں کیلئے حلقہ اربابِ ذوق ایک بہترین سرائے ثابت ہوا۔ کوئی بھی ادارہ ہو اگر اس میں ایک ہونے کا جذبہ کارفرما نہیں ہوگا باطنی ضبط اور تنقیدی جملوں کو سہنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوگی تو بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔حلقہ ارباب ذوق میں ادبی اور عملی لڑائیاں مکالمے اور معرکے تنقیدی تبصرے، افسانے اور کہانی کے ساتھ ساتھ ادیب کے خیال وفکر کے تنقید برائے اصلاح کے تحت پرخچے اڑا دیئے جاتے کہیں غزل کو بے لباس کرکے اور شاعر کو نقاد کی برچھیاں سہنی پڑتیں، نقاد عابد علی ادیب سبط حسن کے مقالے کے لتّے لیتے تو دوسرے نقاد عابد علی عابد کی تحریروں پہ غول کی صورت ٹوٹ پڑتے مگر آفرین ہے اس دور کے اعلیٰ سیرت وکردار کے حامل ادیبوں، شاعروں پر کہ تمام بحث ومباحثے ادب اور احترام کے دائرے میں ہوتے اوریہ غلغلہ تنقید حلقہ اربابِ ذوق کی میز پہ ہی ختم ہوجاتا۔ پھر چائے کا دور چلتا اور معاشرے کے صحت مند دماغ نئی کہانی کا منظر نامہ سوچتے سوچتے نئی غزل کے ردیف قافیے پہ گفتگو کرتے اپنی راہ لیتے۔
حلقہ اربابِ ذوق ذہنی تربیت گاہ تھا جس نے شہرت بخاری میرا جی، ضیاء جالندھری، محمدصفدر میر، انتظارحسین اور مرزا ادیب جیسے کہانی کار اور ایسے کئی نابغہ ہستیاں ہمیں انعام کے طور پر تیار کرکے دیں۔
آج بھی حلقہ اربابِ ذوق قلم کاروں کو ادب کے جوہر سے آشنا کرنے کیلئے اہم کردار ادا کررہاہے۔ ادیب کی اپنے عہد کے سماجی شعور سے آگہی بہت ضروری ہے، ادبی تقریبات ہمارے معاشرے کی علم دوست فضا کی غماز ہیں، جہاں ہماری روایات میں میلے اورثقافتی پروگرام ہوا کرتے ہیں وہیں ادبی محفلوں نے بھی اپنی روایت قائم رکھی ہوئی ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق اور دیگر ادبی محفلوں کا مطمع نظر صرف تنقیدی نشستیں اور محکموں کا انعقاد ہی نہیں بلکہ ادیب اور سامعین کے درمیان ایسی فضا قائم کرنا بھی ہے جہاں محبت، ایثار ،صبر، دوستی اور اخلاقیات پروان چڑھتے ہوں۔حال ہی میں4اکتوبرکو حلقہ ارباب ذوق میں کرونا کے طویل المدت لاک ڈائون اورپھیلائو میں کمی آنے کے بعد انتخابات کا اجراء ہوا جوکہ بہت خوش آئند ہے، جوق درجوق ادیب اور شاعر یوں چلے آرہے تھے جیسے شمع پہ پروانے، حلقہ اربابِ ذوق کے انتخابات کا سلسلہ تو روز اول سے جاری ہے ہر سال حلقہ کے جوائنٹ سیکرٹری اور سیکرٹری کے انتخاب کا اہتمام کیاجاتاہے مگر میرے لیے یہ دو اعتبار سے قابل ذکر ہے۔ اول یہ کہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ مجھے بھی اس تقریب کی گہما گہمی دیکھنے کا بالمشافہ موقعہ ملا۔ سیکرٹری کیلئے نوجوان شاعر ادیب حماد نیازی اور کہنہ مشق اور تجربہ کار شاعر توقیر شیریفی کے درمیان مقابلہ تھا ہر دو ارکان حلقہ کیلئے ہر دلعزیز ہیں اور ان کے درمیان پیشہ وارانہ رقابت کی بجائے فنکارانہ رفاقت کا رشتہ ہے۔ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ادب میں بھی خواتین کی نمائندگی ہے ان کو بھی عزت و وقار سے دیکھاجاتاہے۔نوجوان ادیبہ فرح رضوی کا جوائنٹ سیکرٹری کیلئے بلامقابلہ انتخاب اس امر کا واضح ثبوت ہے۔ سیکرٹری کے انتخاب کا پر رونق میلہ سجانے میںہر شاعر وادیب حصہ دار ہونے کی وجہ سے مبارکباد کا حقدار ہے۔ انتخابی مرحلہ جمہوری طریقے سے بطریق احسن اہتمام پایا لیکن مجلس عاملہ کے ارکان نے اپنے فرائض بڑی تندہی سے انجام دیئے۔ اس ضمن میں خاص طورپر حسین مجروح اور حلقہ کے موجودہ سیکرٹری(تادمِ تحریر) اس صحت مند سرگرمی کے انعقاد پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ آخر میں دونوں امیدواروں کیلئے بالعموم اور سیکرٹری کے لئے منتخب ہونے والے حماد نیازی کیلئے بالخصوص مبارکباد۔
حلقہ اربابِ ذوق زندہ باد
٭…٭…٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024