تیرہ سال بعد بھی سانحہ کار ساز ایک معمہ
امین یوسف
18اکتوبر 2007پاکستان کی سیاسی تاریخ کے سیاہ ترین دنوںمیں سے ایک‘جب کراچی میں شاہراہ فیصل پر پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے قافلے پر دہشت گرد حملہ کیا گیا جس میں محترمہ تو اللہ کے فضل سے محفوظ رہیں لیکن ان کے جیالے چاہنے والے اپنی لیڈر پر قربان ہو گئے۔ 18 اکتوبر 2007 کو جلوس میں دو دھماکوں کے نتیجے میں لگ بھگ 200 افراد ہلاک اور 500 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اس سانحہ میں شہیدہونے والوںکی برسی منائے گی اس اعلان کے بعد پیپلز پارٹی کے وفاقی، صوبائی رہنماوں کے ساتھ ساتھ وزراء نے بھی سندھ بھر میں بھرپور سیاسی مہم کا آغاز کردیا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ18 اکتوبر کو عوامی اجلاس پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے لئے ریفرنڈم ہوگا۔جلسہ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شرکت کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنے کے لئے حیدرآباد میں پیپلز پارٹی کے قانون سازوں کا اجلاس ہوا جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ 18 اکتوبر کوکراچی میں ہونے والا جلسہ تاریخی ہوگا۔ پیپلز پارٹی کو جمہوریت کی بحالی کی کوشش میں پارٹی کو 200 لاشوں کا تحفہ دیا گیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے اس افسوسناک واقعہ کی فوری ایف آئی آربھی درج نہیں کی گئی تھی۔ اس وقت کی صوبائی حکومت نے، وزیر اعلی ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کے حکم پر تحقیقات کے لئے انکوائری ٹریبونل قائم کیا تھا۔ ریٹائرڈ جسٹس ڈاکٹر غوث محمد کی سربراہی میں ٹریبونل نے کارروائی شروع کی اور 40 کے قریب گواہوں کے بیانات قلمبند کیے۔بعد ازاں اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، جو محترمہ بھٹو کے چیف سیکیورٹی کے مشیر تھے، نے نامعلوم وجوہات کی بناء پرکارساز دھماکوں کی تحقیقات کے لئے ایک نیا ٹریبونل قائم کرنے کا کہا۔2008 سے صوبے میں برسر اقتدار ہونے کے باوجود، پیپلز پارٹی کی حکومت نے اب تک سانحہ کی تحقیقات کے لئے ٹریبونل قائم نہیں کیا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کارساز ٹریبونل کی کارروائی نے محترمہ بھٹو کے وطن واپسی کے جلوس کے حفاظتی انتظامات میں کئی خامیوں کو اجاگر کیا۔ یہ خرابیاں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور منتظمین دونوں کی طرف تھیں اور پیپلز پارٹی نے بظاہر ٹریبونل کو ختم کردیا اور کوئی دوسرا قائم نہیں کیا کیونکہ وہ سیکیورٹی کی خرابی کی ذمہ داری کو قبول نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 2012 میں، اس وقت کے وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا تھا کہ صوبائی حکومت نے سانحہ کارساز کی تحقیقات کے لئے پولیس کے ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی ہے۔ لیکن پوچھ گچھ کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔اس کیس کے دو اہم گواہان خالد شہنشاہ اور بلال شیخ دونوں سینئر سیکیورٹی آفیسر، جو کارساز میں بینظیر کے ساتھ آئے تھے، مبینہ ٹارگٹ کلنگ کے الگ الگ واقعات میں مارے گئے ہیں۔مجھے وہ منظر اچھی طرح یاد ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو دبئی سے آنے والے طیارے سے باہر آئیں توفضا ''وزیر اعظم بے نظیر'' کے نعروں سے گونج اٹھی جیالے بہت پُرجوش، خوش اور نعرے بازی میں مگن تھے ۔صحافیوں سے بات چیت کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے انتہائی پر اعتمادلہجے میں کہا کہ ''جمہوریت کا وقت آگیا ہے۔ اگر ہم پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں جمہوریت رکھنی ہوگی۔انہوں نے واضح کہا تھا کہ وہ جنوری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اپنی پارٹی کی قیادت کے لئے پاکستان واپس آئی ہیں۔ اگرآئین وقانون میں کوئی تبدیلی ہوئی تو وہ تیسری بار وزیر اعظم کے عہدے پر انتخاب لڑیں گی۔ لیکن محترمہ کا یہ خواب پورا ہونے سے قبل ہی ختم کردیا گیا۔2007سے 2020تیرہ سال کا عرصہ گرزجانے کے باوجود سانحہ کارساز ایک معمہ ہی ہے۔ گذشتہ 12سال سے صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن ان دھماکوں کی تحقیقات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے 18 اکتوبر، 2017 کو، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے اعلان کیا تھا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی کے سربراہ ثناء اللہ عباسی کی سربراہی میں پانچ رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میںدھماکے کے معاملے کی تحقیقات کی جائیں گی۔