امید ہے سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی کے بادل چھٹ جائینگے
خطے میں امن کیلئے وزیراعظم کی شٹل ڈپلومیسی ‘ ایران کا حوصلہ افزاء جواب‘ امریکہ کا خیرمقدم
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات ہیں اور دونوں برادر ممالک کے درمیان اختلافات مذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ پیچیدہ معاملہ ہے لیکن اسے مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تنازعہ سے نہ صرف خطے کے امن و سلامتی بلکہ معیشت پر بھی اثرات مرتب ہونگے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خطے میں کوئی تنازعہ پیدا نہ ہو۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایران کے صدر حسن روحانی کے ہمراہ مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایران کے صدر کے ساتھ گزشتہ کچھ عرصے میں یہ تیسری ملاقات ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ انہوں نے کہا مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حمایت پر ایرانی حکومت کے شکرگزار ہیں۔ بھارت نے 80 لاکھ کشمیریوں کو مقبوضہ وادی میں قید کر رکھا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ ایران آنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں‘ خطے میں کوئی تنازعہ نہ ہو۔ ایران کے ساتھ تعلقات تاریخی نوعیت کے ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات انتہائی تاریخی اور گہرے ہیں۔ سعودی عرب نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایران کے صدر حسن روحانی سے مشاورت حوصلہ افزا رہی۔ ایک مثبت سوچ کے ساتھ سعودی عرب جارہا ہوں۔ ایران اور سعودی عرب کے دورے اور بات چیت خالصتاً پاکستان کا اپنا اقدام ہے۔ نیویارک میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کے دوران ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کردار ادا کرنے کو کہا تھا۔ ایرانی صدر کے ساتھ ملاقات کے دوران ایران کے ایٹمی پروگرام سے متعلق معاہدے اور امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کی گئی پابندیوں سے متعلق تفصیلی تبادلہ خیال کیا ہے۔ ایرانی قیادت کو یقین دلایا کہ امریکہ ایران مذاکرات میں سہولت کاری کیلئے سب کچھ کریں گے تا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدہ ہو اور پابندیاں اٹھائی جا سکیں۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ پاکستان اور ایران برادر پڑوسی اور دوست ملک ہیں۔ دونوں ملک مل کر خطے کے استحکام کیلئے کاوشیں کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور ایران خطے کے مسائل بات چیت سے حل کرنے کے حامی ہیں۔ پاکستانی اور ایرانی قیادت کی ملاقاتیں خطے میں صورتحال کی بحالی کیلئے اہم ہیں۔ ایران پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی ہے، ایران کا دورہ کرنے پر وزیراعظم عمران خان کے شکرگزار ہیں۔
ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات میں کشیدگی سے مسلم امہ کی تقسیم کے خدشات بھی سر اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کے دونوں برادر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔ پاکستان کیلئے بہت سے حوالوں سے دونوں ممالک کے ساتھ اٹوٹ تعلقات کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین تلخیاں بڑھتی بڑھتی کشیدگی کی انتہائوں تک پہنچ گئیں‘ کئی بار دونوں ممالک پر جنگ کے بادل بھی منڈلاتے نظر آئے۔ دھمکیاں تو روز کا معمول تھیں۔ اس دوران بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی متوازن رہی۔ پاکستان نے کسی ایک کو بھی ناراض نہیں کیا۔ ان ممالک کی طرف سے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کیا گیا۔ کسی ایک نے بھی پاکستان پر دوسرے کے مقابلے میں اپنی حمایت پر زور نہیں دیا۔ پاکستان کی طرف سے متعدد بار ایران سعودیہ اختلافات کی خلیج پاٹنے کی کوشش کی گئی۔ عمران خان کی شٹل ڈپلومیسی اسی پالیسی کا تسلسل ہے۔ ایران سعودی تعلقات کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی دانشمندانہ اور غیرجانبدارانہ رہی۔ اسی کے باعث آج پاکستان دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں کمی کیلئے ثالث اور سہولت کار کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
وزیراعظم کا ایران کا دورہ کامیاب رہا‘ دورے سے قبل ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا تھا کہ ایران عمران خان کے ایران سعودیہ تعلقات میں کشیدگی ختم کرانے کیلئے کردار کا خیرمقدم کرتا ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کے علاوہ حالات میں بہتری کا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی عمران خان کے دورے کو خطے میں امن کے قیام کیلئے اہم پیشرفت سے تعبیر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خیرسگالی کا خیرسگالی کے جذبے سے جواب دیا جائیگا۔ عمران خان کی ایران کے روحانی لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بھی خطے کے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا۔ گویا ایران کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کی خطے اور سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی میں کمی کی کوششوں کی تائید کی گئی ہے۔ ایران یمن جنگ اور امریکی پابندیوں کے خاتمے کی بات بھی کرتا ہے۔ ایران سعودیہ تعلقات میں بہتری آتی ہے تو یمن کے ساتھ ساتھ اسکے مثبت اثرات تباہ شدہ شام میں بھی نظر آئینگے۔
خطے میں صرف ایران سعودی عرب تعلقات میں کشیدگی ہی سے صورت دگرگوں نہیں ہوئی۔ امریکہ کا کردار اس حوالے سے زیادہ اہم ہے۔ ایران تو امریکہ کی جانب سے عائد کی گئی پابندیوں کی زد میں آنے کے ساتھ ساتھ امریکی بحری بیڑوں کے بھی حصار میں ہے۔ جنگ کے بادل ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرے ہوتے جارہے ہیں۔ امریکہ نے فائیو پلس ون معاہدہ دوسرے پانچ ممالک کو اعتماد میں لئے بغیر ختم کرکے ایران پر پھر پابندیاں عائد کردیں۔ الزام لگایا گیا کہ ایران معاہدے سے انحراف کررہا ہے مگر ایران کی طرف سے معاہدے پر بدستور عمل کی بات کی جاتی ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ایران ایٹمی پروگرام میں پیشرفت کر سکتا ہے۔ اس کا امریکہ کو بھی شاید ادراک ہوگیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے عمران خان کو ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری کیلئے کردار کرنے کو کہا جس کا وزیراعظم نے ایران میں صدر روحانی کے ساتھ نیوز کانفرنس کے دوران بھی ذکر کیا۔ اب عمران خان کے ایران کے دورے کا بھی امریکہ کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا ہے۔
پاکستان کے سینئر حکومتی حکام کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے تہران کے دورے کا امریکہ کی طرف سے خیر مقدم کرتے ہوئے حمایت کی گئی ہے۔ امریکہ پاکستان کے اس کردار سے خوش ہے اور وہ پہلے بھی یہ بات پاکستان پر واضح کرچکا ہے کہ امریکہ خطے میں کوئی جنگ نہیں چاہتا اور سعودی عرب ایران میں بات چیت کرانے کیلئے پاکستان کی کوششوں کو سراہتا ہے۔ مزیدبراں پاکستان باقاعدگی کے ساتھ امریکی حکام کو علاقائی کشیدگی اور اس کے خاتمہ کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں سے آگاہ کررہا ہے اور امریکہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے دوران امریکی صدر نے پاکستانی وزیراعظم کو کھلے دل سے کہا تھا کہ وہ امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس دوران ٹرمپ کے قریبی مشیروں نے صدر ٹرمپ کو مشورہ دیا تھا کہ کیوں نہ اس سے پہلے عمران خان سعودی عرب اور ایران کے مابین مفاہمت کیلئے کردارادا کریں۔ اس سے ایران کی نیت کا بھی پتہ چل جائے گا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے کتنا سنجیدہ ہے۔ اگر امریکہ خطے میں قیام امن کے حوالے سے ایران کی سنجیدگی پرکھنا چاہتا تھا تو عمران خان کے ساتھ ایرانی قیادت کی ملاقاتوں سے اسکے خطے میں کشیدگی ختم کرنے کیلئے تعاون سے واضح اظہار ہوتا ہے۔
سعودی عرب بھی خطے میں امن کا خواہاں ہے‘ ایران سعودی عرب اختلافات جس سطح پر پہنچ چکے ہیں‘ ان کو معمول پر لانا گو مشکل ہے مگر ناممکن نہیں۔ عمران خان کے بقول یہ پیچیدہ سہولت کاری ہے۔ نیتیں صاف ہوں تو ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب سمیت کوئی بھی ملک غیریقینی صورتحال پر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ اس سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ ایران کے بعد عمران خان کے سعودی عرب کے دورے سے دو برادر مسلم ممالک میں مفاہمت کیلئے ان کا کردار مزید مؤثر ہوسکتا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ عمران خان کے ایک اچھے ثالث اور سہولت کار کے طور پر کردار سے خطے میں کشیدگی کے لہراتے اور جنگ کے منڈلاتے بادل جلد چھٹ جائیں گے۔