منگل ‘ 15؍ صفرالمظفر 1441ھ ‘ 15 ؍ اکتوبر 2019 ء
لیگی وفد نے فضل الرحمن کو نواز شریف کا خط پہنچا دیا
آج کل ملکی سیاست میں دھرنا سب سے بڑا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کچھ اس سے خوفزدہ ہیں اور کچھ اس کا مزہ لے رہے ہیں۔ مگر گزشتہ ایک دو روز سے نواز شریف کا مولانا فضل الرحمن کے نام جیل سے خط سب سے زیادہ موضوع بحث ہے کیونکہ اس کا نفس مضمون جب تک عام نہیں ہوتا لوگوں کی دلچسپی اسی طرف لگی رہے گی کہ میاں جی نے مولانا کے نام کیا پیام لکھا ہے۔ یہ صرف …؎
ہم لکھیں خط تمہیں گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو ہیں عاشق تمہارے نام کے
والا معاملہ نہیں ہے ، نہ خط لانے والے بتا رہے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہے نہ خط پڑھنے والے اس بارے میں کوئی بات کر رہے ہیں۔ سب خاموش ہیں۔ ظاہر ہے سیانے کہتے ہیں کہ خاموشی آنے والے طوفان کا پتہ دیتی ہے۔ اب معلوم نہیں آنے والا طوفان ہے یا آندھی مگر خاموشی اس وقت ہزار معنی لیے ہوئی ہے۔ مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان صاحبہ تو اس خط کو مسلم لیگ (ن) کی تقسیم کا سندیسہ کہہ رہی ہیں کہ بھائی کی بات بھائی نہیں مان رہا۔ کئی اور لوگ بھی مسلم لیگ (ن) کی تقسیم کے متوقع اعلان کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس موقع پر اظہار مسرت کے لیے آتش بازی اور مٹھائی کا بھی بندوبست کر چکے ہیں۔ مگر ابھی تک کسی کی دلی مراد بر نہیں آئی۔ مولانا فضل الرحمن کا دھرنا اور نواز شریف کا خط کیا عوام کیا حکومت دونوں کے حواس پر سوار ہے۔ سب اپنی اپنی تاویلیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں پٹاری سے کیا نکلتا ہے۔
٭٭٭٭٭
گورنر سندھ نے ہیوی بائیک چلا کر سرطان کیخلاف ریلی کا افتتاح کیا
گورنر سندھ کے ہیوی بائیک کے شوق کا تذکرہ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ وہ یورپی بائیکرز کی طرز پر جب کائو بوائے سٹائل میں ہیوی بائیک چلاتے ہیں تو کئی لوگ ان کی فٹنس پر آہیں بھر کر رہ جاتے ہیں۔ گزشتہ روز بھی سینے کے سرطان سے آگہی کی ریلی کی قیادت انہوں نے ہیوی بائیک چلاتے ہوئے کی جس سے ان کی ساد ہ عوامی زندگی اور رکھ رکھائو کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ صرف مزاج ہی نہیں زبان و بیان بھی ان کی بہت سادہ ہے۔ وہ جو بات ہوتی ہے اسے حاشیہ آرائی کے بغیر بے کم و کاست بیان کر دیتے ہیں۔ گزشتہ روز وزیر سائنس نے جن کا نام نہ بھی لیا جائے تو لوگ جان لیتے ہیں‘ جی ہاں فواد چودھری نے ایم کیو ایم کے حوالے سے جو پی ٹی آئی کی حلیف جماعت ہے کچھ پھر ایسی ویسی بات کہہ دی کہ حکومتی اتحادی تلملا اٹھے۔ اب اس چودھری جی کی لگائی آگ کو بجھانے کا کام گورنر سندھ نے اپنے سرے لیا ہے اور کہا کہ وہ وزیر اعظم سے اس بارے میں بات کریں گے۔ ایم کیو ایم والے شانت رہیں اور دل چھوٹا نہ کریں۔ اس طرح چلو ایم کیوایم والوں کی بھی تسلی تشفی ہو گئی ہو گی۔ فواد چودھری بھی ذرا دائیں بائیں دیکھ کر زبان چلایا کریں۔ الفاظ کئی مرتبہ خنجر سے بھی زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ کہنے والے نے تو کہہ دیا مسئلہ صفائیاں پیش کرنے والوں کو ہوتا ہے۔
پاکستان چاہے تو دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کے لیے اپنی فوج بھیج سکتے ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع
چاہنے کو تو پاکستان بھی کہہ سکتا ہے اگر بھارت چاہے تو مقبوضہ کشمیر میں بدامنی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے پاکستان وہاں اپنی فوج بھیج سکتا ہے۔ اب اس بات پر زیادہ تلملانے کی ضرورت نہیں۔ وہ کہتے ہیں ناں…’’جیسا منہ ویسی چپیڑ‘‘ تو جناب یہ اوٹ پٹانگ باتیں کر کے بھارت مسئلہ کشمیر پر اپنی خفت مٹا نہیں سکتا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ خود بھارت مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی کر رہا ہے۔ عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت پر زور دے رہی ہیں کہ ان کے وفود کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے مگر بھارت ایسا نہیں کر رہا۔ اگر کشمیر میں راوی چین ہی چین لکھتا ہے تو پھر بھارت اجازت دے کیوں نہیں رہا۔ اس قسم کے عامیانہ طفلانہ بیانات سے اگر بھارتی وزیر دفاع اپنی بہادری جھاڑ رہے ہیں تو ان کی بہادری نہتے کشمیریوں نے غبارے سے ہوا کی طرح نکال کر دکھا دی ہے۔ 9 لاکھ بھارتی سورمے جدید اور خطرناک اسلحہ سے لیس ہو کر بھی نہتے کشمیریوں کے آگے بے بس ہیں۔ پوری وادی میں 71 روز سے کرفیو نافذ ہے مگر پھر بھی روزانہ کشمیری بھارت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ بھارت پاکستان کو وادی کشمیر میں امن بحال کرنے اور وہاں جاری بھارتی مسلح فوجی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنی فوجیں کشمیر بھجوانے کی اجازت دے۔ یہ زنانیوں کی طرح جملے بازی سے کچھ نہیں ہوتا۔
٭٭٭٭٭
مارچ میں ڈنڈا لہرانے پر کارروائی ہو گی : شوکت یوسفزئی
کچھ ہو نہ ہو جب تک وزیر اطلاعات خیبر پی کے جیسے مرد گفتار میدان میں موجود ہیں دھرنے سے قبل ہی خوف و ہراس کے ساتھ آتش انتقام کو بھڑکانے کے لیے ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اب بھلا اس وقت جب ویسے ہی ٹینشن طاری ہے۔ ایسے رنگین و سنگین بیانات جاری کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کیا موصوف یہ نہیں جانتے کہ جے یو آئی والے اگر کوئی دینی کانفرنس بھی کرتے ہیں تو ان کی ڈنڈا بردار فورس ہمہ وقت چاق و چوبند اور تیار وہاں موجود ہوتی ہے۔ اس طرح اگر صرف مولانا فضل الرحمن کا استقبال بھی کرنا ہو تو بھی یہ ڈنڈا بردار دستہ حاضر رہتا ہے۔ اب مارچ کی بات چھوڑیں جس روز شوکت یوسفزئی نے یہ بیان دیا اس روز پشاور کی سڑکوں پر جے یو آئی کا یہی ڈنڈا بردار بارودی دستہ مارچ کرتا بھی نظر آیا۔ بھلا ان کا کیا کسی نے بگاڑ لیا۔ تب شوکت جی کو ہوش کیوں نہ آیا۔ اگر ڈنڈا پرامن احتجاج کے لیے لہرایا جائے تو صرف اس بات پر ایکشن لینا درست نہیں۔ یہ تو صاف اشتعال دلانے کی بات ہے۔ اب کہیں سارا جلوس ہی ڈنڈے اٹھائے نکل پڑا تو پھر کس کی سبکی ہو گی۔ اس لیے آگ پر تیل ڈال کر اسے بجھایا نہیں جاتا پانی چھڑک کر بجھایا جاتا ہے۔ جوابی بیانات میں جے یو آئی والے بھی یہی زبان استعمال کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں چھیڑا تو کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس لیے موجودہ حالات میں آگ لگانے کی بجائے آگ بجھانے والوں کو آگے آنا چاہئے تاکہ معاملہ خراب نہ ہو۔ حکومت بھی اپنے وزرا کے بیانات پر سنسر لگائے۔
٭٭٭٭