عمران خان اپنے عوامی جلسوں میں اکثر مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کا طعنہ دیا کرتا تھا۔ اشارہ ان ڈیزل کے پرمٹس کی طرف تھا جو مولانا کو مبینہ طور پر بے نظیر کے دور میں ملے تھے۔ ڈیزل طاقت کا استعارہ ہے بالاخر تنگ آ کر حضرت نے طاقت کے مظاہرے کا اعلان کر دیا ہے اور اس کے لیے 27 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔ مقصد حکومت کو گرا کر خان کو رخصت کرنا ہے۔ الزامات کی فہرست خاصی طویل ہے۔ سب سے بڑا الزام تو یہ ہے کہ خان آیا نہیں لایا گیا ہے۔ رائے عامہ کی ’’چوری‘‘ نہیں ہوئی، دن دیہاڑے اس پر ’’ڈاکہ‘‘ ڈالا گیا ہے۔ ’’نااہل حکومت‘‘ نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ مہنگائی ساتویں آسمان تک پہنچ چکی ہے۔ بھوک چارسو بھنگڑا ڈال رہی ہے۔ غریب آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ کئی روگ اس نے بیک وقت پال لیے ہیں۔ اگر بجلی اور گیس کے بل دیتا ہے تو کھانے کے لیے کچھ نہیں بچتا۔ اگر ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے تو گھر عدم ادائیگی کی وجہ سے تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ گیس کنکشن کٹنے سے چولہا سرد پڑ جاتا ہے…بے بسی اور بیکسی کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص دوسرے سے پوچھتا ہے‘ جائوں کدھر کو میں؟
حکومت کا استدلال یہ ہے کہ بیمار معیشت اسے ورثے میں ملی ہے۔ سابقہ حکومت جاتے جاتے اس کی راہ میں صرف کانٹے نہیں بچھا گئی بلکہ LAND MINES کا جال بُن گئی ہے۔ SCORCHED EARTH POLICY خزانہ خالی، قرضوں کا کوہِ گراں، ہمہ گیر کرپشن، اقربا پروری جو شخص اپنے ذاتی محل کے اردگرد ستر کروڑ روپے کی حفاظتی دیوار سرکاری خزانے سے بنوائے اسے ملک اور عوام کا کس قدر خیال ہو گا؟ یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف جاتی امرا تک جانا درکار ہو گا…جو قصے اور کہانیاں زرداری کے متعلق 1990ء کی دہائی میں مشہور تھیں ، انہوں نے اب ایک برہنہ حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔
گویا اتہام اور الزامات کا ایک لامتناعی سلسلہ ہے جو کسی طور ختم ہونے میں نہیں آ رہا…حکومت کا المیہ یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ لمحہ موجود کو دیکھتے ہیں۔ ماضی میں کم کم ہی جھانکتے ہیں۔ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی پر صحیح معنوں میں دورِ ابتلا ہے۔ ان کی قیادت نیب کے شکنجے میں ہے۔ فوجداری مقدمات کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہے اور ایک ایسے جال میں پھنس چکی ہے جو مشہور ڈرامہ نگار جان گالس وردی کے الفاظ میں ) If I cut it here, it GROWS UP THERE جال کے ایک حلقے سے پائوں نکلتا ہے تو دوسرے میں پھنس جاتا ہے( سیاست میں بالخصوص اور زندگی میں بالعموم صحیح وقت کا ادراک ضروری ہوتا ہے۔ لوہے کو اسی وقت ہی ضرب مارنی چاہئے جب وہ پور طرح گرم ہو اور مڑ سکے۔ مولانا فضل الرحمن کا خیال ہے کہ فولاد پوری طرح گرم ہو چکا ہے۔ حکومت مشکلات میں مکمل گِھر چکی ہے۔ معیشت سکڑ گئی ہے۔ غربت اور بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے عوام کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں۔ سڑکوں پر آنے کے لیے وہ کسی صورِ اسرافیل کے منتظر ہیں۔ دینی قوتیں بھی مضطرب اور مضمحل ہیں۔ مدرسوں میں اصلاحات کا جو اعلان مرکزی حکومت نے کیا ہے وہ ان کے حقوق ، اختیارات اور معیشت پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ پتہ نہیں کس بزرجمہر نے انہیں آبیل مجھے مار کا مشورہ د یا ہے۔ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا یقیناً عقلمندی نہیں ہے۔ اس قسم کے عاجلانہ اقدامات اور اعلانات سے حکومت اپنے لیے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر رہی ہے جو کام آپ کر نہیں سکتے اس کے لیے اس قدر شدو مد سے چیخنے اور چلانے کی کیا ضرورت ہے! نہ آپ کے پاس سینیٹ میں عوامی اکثریت ہے نہ آپ کے اپنے ممبر مکمل طور پر اس سے اتفاق کریں گے، تو پھر اس نازک گھڑی میں بے وقت کی راگنی الاپنے کا کیا فائدہ ہے؟ یہ قدم ان ہمہ مقتدر قوتوں کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے جن کی مرضی کے بغیر وطن عزیز میں پتا بھی نہیں ہلتا اور جن کے پیشِ نظر عمومی طور پر ملکی مفاد ہوتا ہے۔ اس لانگ مارچ کے پیچھے مولانا کی مرضی کے علاوہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی ہلاشیری بھی شامل ہے۔ تھپکی دے کر انہوں نے ا یک قدم پیچھے ہٹا لیا ہے۔ وہ عجب مخمصے کا شکار ہو گئیں ۔ کرشن چندر نے کسی جگہ لکھا تھا ’’وہ آگ تاپنا چاہتی تھی مگر اس کی حرارت سے بھی ڈرتی تھی۔‘‘ یہ لوگ لانگ مارچ اور دھرنے کی شکل میں حکومت گرانا چاہتے ہیں لیکن ناکامی کی صورت میں اس کے مضمرات سے بھی ڈرتے ہیں۔ درپردہ ان کی خواہش ہے کہ ان کی عدم شمولیت کے بغیر ہی مطلوبہ مقاصد پورے ہو جائیں۔ بالفرض مکمل کامیابی نہ بھی ہو تو حکومت اس قدر ہل جائے اور کمزور ہو جائے کہ اسے طوعاً و کرہاً ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنا پڑے۔ مقدمات ختم ہو جائیں…اس کے لیے یہ لوگ اپنی عدم شمولیت یا نیم دلانہ شرکت کے لیے عجیب شرائط رکھ رہے ہیں۔ شہباز شریف نے دھرنے کو کچھ عرصہ تک موخر کرنے کا کہا ہے۔ ان کے خیال میں پارٹی کو منظم کرنے میں وقت درکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت درپردہ صاحبان اقتدار سے جو گفت و شنید ہو رہی ہے انہیں اس کے نتائج کا انتظار ہے۔ بالفرض کچھ ریلیف مل جاتا ہے تو یہ حسبِ روایت حسبِ عادت ، مشرقی محبوب کی طرح مولانا سے آنکھیں پھیر لیں گے۔ بصورت دیگر کہیں گے قدم بڑھائو مولوی ہم تمہارے ساتھ ہیں! ہو سکتا ہے اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہو اور ایک شکستہ دل مولانا ان کی کسی بھی بات پر دھیان نہ دے۔ اس طرح تمام مخالف پارٹیاں تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائیں۔ بلاول جس قسم کے بیانات دے رہا ہے اس سے علامہ کے شعر کی پوری طرح تائید ہوتی ہے۔ …؎
بادہ ہے نیم رس ابھی
ذہن ہے نارسا ابھی
ُُ’’ہم اخلاقی طور اور سیاسی طور پر مولانا کے ساتھ ہیں لیکن دھرنے اور مذہب کارڈ کے خلاف ہیں‘‘ ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے! ہماری سیاست میں اخلاق کہاں سے ٹپک پڑا ہے؟ سندھ کی حد تک تو یہ کچھ موثر نہیں لیکن اسلام آباد جانے کے لیے ان کے پاس پنجاب میں ورکر نہیں ہیں۔ اس بات کا مولانا کو بھی پتہ ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر ان کی شمولیت کے خواہاں ہیں۔ تاکہ اخباروں میں آ سکے کہ تمام پارٹیوں نے مل کر حکومت کے خلاف تحریک چلائی ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ جنوری تک عمران نے استعفیٰ نہ دیا تو ہم اسے ہٹا دیں گے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس بیان پر ہنسا جائے ، رویا جائے یا بیک وقت دونوں کیفیتوں سے گزرا جائے! بالفرض مولانا ناکام ہو گئے تو آپ تنکے کی طرح بہہ جائیں گے۔ آپ کے لیے اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ ابھی تک تو مقدمات کا ٹریلر چل رہا ہے، پھر پوری HORROR MOVIE چلے گی۔ آپ اور (ن) لیگ منقار زیر پر ہونگے اور بقول ہمارے دوست ملک صاحب عمران خان WILL MARCH TRIUMPHANTLY ON اب ہو گا کیا؟ کیا مولانا کامیاب ہونگے یا حکومت موثر طور پر مارچ کو دبا دے گی؟ کیا متذکرہ بڑی پارٹیاں شروع ہی سے شمولیت اختیار کرینگی یا ہوا کا رخ دیکھیں گی۔ بالفرض کامیابی کے آثار نظر آئے تو اکھاڑے میں چھلانگ لگا دیں گی۔ ناکامی کی صورت میں کہہ سکیں گی ، ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وقت موزوں نہیں ہے! بظاہر دھرنے سے حکومت گرانا مشکل ہو گا۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا اب بھی نہیں ہو گا! بالفرض ایسا ہو گیا تو یہ معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ ایسی صورت میں نادیدہ قوتیں کوئی درمیانی راستہ نکال لیں گی۔حکومت کو پریشانی دو وجوہ سے ہے…دیگر پارٹیوں کے اصرار پر مولانا بڑی آسانی سے دھرنے کو چند ہفتوں کے لیے ملتوی کر سکتے تھے۔ اس طرح دو بڑی پارٹیوں کے لیے شامل ہونا لازم ہو جاتا۔
انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ کیا کہیں سے انہیں تھپتھپایا گیا ہے؟ بلاول جو مرضی کہتا پھرے اس مارچ نے ہر صورت مذہبی رنگ اختیار کرنا ہے۔ پاکستان کے ہزاروں دینی مدرسوں سے طلباء کو اسلام کے نام پر ہی نکالا جا سکتا ہے۔ جواز حکومت نے ویسے ہی فراہم کردیا ہے۔ ’’بچوں کو مغربی لادینی تعلیم دی جائے گی۔‘‘ یہ بیل کو سرخ کپڑا دکھانے کے مترادف ہو گا! مارچ صرف مدرسوں یا طلبا تک محدود نہیں رہے گا۔ ان کے والدین ، عزیز و اقارب بھی منطقی طور پر شمولیت اختیار کرینگے۔ سختی کی صورت میں سارے ملک میں (PITCHED BATTLES) شروع ہو سکتی ہیں …بالفرض اس صورت میں افلاس زدہ بھوکے ننگے لوگ بھی باہر نکل آئے تو کیا ہو گا؟ تحریک اگر دب بھی گئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ نتیجتاً زبوں حال معیشت سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ جائے؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024