پاکستان بھر سے آئے مشائخ عظام‘ علمائے کرام اور ان کے عقیدت مندوں کا ایک جم غفیر تھا جس کے آگے ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان‘لاہور کے وائیں ہال کا دامن تنگ پڑ گیا تھا۔ امیر مرکزی جماعت اہل سنت پاکستان پیر عبدالخالق القادری سجادہ نشین خانقاہ عالیہ قادریہ بھرچونڈی شریف‘ سندھ کی دعوت پر ایک روزہ سالانہ قومی تصوف سیمینار کے یہ شرکاء دینی جماعتوں میں اتحاد و یک جہتی کا وہ حسین منظر پیش کررہے تھے جسے دیکھنے کا ہر پاکستانی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے متمنی ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ اور حافظ الملّت فائونڈیشن کے زیر اہتمام اس نظریاتی اجتماع کا عنوان ’’نسلِ نو کی کردار سازی اور علماء و مشائخ کی ذمہ داریاں‘‘ تھا جس کی صدارت دربار عالیہ اجمیر شریف کے سجادہ نشین دیوان آلِ حبیب علی خان چشتی نے کی۔ خانقاہ عالیہ بھرچونڈی شریف کا شمار سرزمین پاک و ہند کی اُن خانقاہوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کفر و شرک کی خطرناک آندھیوں میں بھی چراغِ مصطفوی روشن کئے رکھا اور دنیا میں ریاستِ مدینہ کی طرز پر کلمۂ طیبہ کی بنیاد پر ایک اور اسلامی نظریاتی ریاست کے قیام کے سلسلے میں مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ حضرت پیر عبدالرحمنؒ نے صوبہ سندھ کے اندر آل انڈیا مسلم لیگ کو قدم جمانے اور تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے جس طرح دامے‘ درمے‘ سخنے نصرت فراہم کی‘ وہ ہماری قومی جدوجہد کا ایک روشن باب ہے۔ ان سے قبل اس درگاہ کے بانی حافظ الملّت حضرت محمد صدیق القادریؒ بھی اپنی روحانی‘ علمی و اخلاقی مساعیٔ جمیلہ کے طفیل اَن گنت غیر مسلموں کو حلقۂ بگوش اسلام کر کے حصولِ پاکستان کی راہ ہموار کرچکے تھے۔ پیر عبدالخالق القادری کو اپنے قابلِ فخر آبائو اجداد کی ان خدمات کا بجا طور پر احساس ہے اور وہ ان کے مقدس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے خود کو وقف کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کی تمام خانقاہوں کے مشائخ عظام نے قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا بھرپور ساتھ دیا تھا اور برطانوی سامراج و ہندو بنیے کے ناپاک گٹھ جوڑ کو ناکام بنایا تھا‘ آج بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ یہ مشائخ عظام میدانِ عمل میں نکل کر عہد حاضر کی فرعونی و طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کریں اور قیامِ پاکستان کے حقیقی مقاصد کے حصول کی خاطر عوام الناس کو متحرک کریں۔سیمینار میں اظہارِ خیال کرنے والے مشائخ عظام پُرعزم تھے کہ وہ لبرل فاشسٹ حلقوں کی یلغار سے ہرگز نہ گھبرائیں گے اور فرقہ وارانہ‘ مسلکی اور شخصی اختلافات مٹا کر یکجان و یک زبان ہوجائیں گے۔ ایک متحد اور مربوط خانقاہی نظام ہی لوگوں بالخصوص نسلِ نو کی بہترین دینی اور دنیاوی تربیت کا ضامن ہے اور الحمدللہ سجادہ نشین حضرات اپنی اس ذمہ داری سے قطعاً غافل نہیں ہیں۔ آستانۂ عالیہ امیر ملّت علی پور سیداں شریف پیر سید منور حسین شاہ جماعتی نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں کہا کہ تحریک پاکستان میں مشائخ عظام اور خانقاہی نظام سے وابستہ ایثار پیشہ افراد کے کردار سے ہر کوئی واقف ہے۔ آج مشائخ عظام کے مابین اُسی اتحاد‘ یک جہتی اور محبت بھرے جذبوں کی ضرورت ہے جو تحریک قیامِ پاکستان کا طرۂ امتیاز تھے۔ اُنہوں نے سٹیج پر جلوہ افروز مشائخ اور علماء کی کثیر تعداد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم باہمی اختلافات کو پس پشت ڈال کر کسی ایک شخصیت کو اپنا رہنما بنا لیں تو پاکستانی قوم کی تقدیر بدل جائے۔ پاکستان کے روشن مستقبل کے متعلق بزرگوں کے فرمودات کے تناظر میں ان کا کہنا تھا کہ اس مملکت خداداد کی عظمت کو چار چاند لگنے کا وقت بہت قریب آن پہنچا ہے اور اب ہمیں اللہ کریم اور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیؐ کے دشمنوں سے مقابلہ کے لئے خود کو تیار کرلینا چاہیے۔
قارئین کرام! قائداعظم محمد علی جناحؒ نے قیامِ پاکستان کو حضور اقدسؐ کا روحانی فیضان قرار دیا تھا۔ برصغیر کی خانقاہوں کے بزرگ اہلِ نظر تھے اور انہیں مشیتِ ایزدی کا اندازہ ہوچکا تھا‘ چنانچہ انہوں نے قائداعظمؒ کی غیر مشروط تائید و حمایت کی۔ ان کے برعکس وطن پرست علماء کا ایک مٹھی بھر گروہ ہندو کانگریس کا ہمنوا بنا رہا ہوتا تو وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے مگر تاریخ میں کچھ نام نور سے تو کچھ ظلمت سے رقم ہوجاتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ آمدِ اسلام سے قبل برصغیر کفر و شرک کا گڑھ تھا جہاں کے باسی توحید و رسالت کے نُور سے ناآشنا تھے۔ محمد بن قاسم کے بعد اس سرزمین پر جتنے بھی عرب و دیگر فاتحین کی آمد ہوئی‘ ان کے ہمراہ یا اُن کے ادوارِ حکومت میں یہاں صوفیائے کرام تشریف لائے۔اُنہوں نے محض حضور پاکؐ کے دینِ حنیف کی اشاعت کی خاطر اپنے گھر بار اور عزیز و اقارب چھوڑ کر ہجرت کی اور سینکڑوں میل دُور ایک اجنبی خطے میں کلمۂ طیبہ کا پرچم بلند کیا۔ آج جو ہم کلمہ گو ہیںتو یہ انہی صوفیائے کرام کی بدولت ہیں۔ اُنہوں نے لوگوں کو صرف کلمہ ہی نہیں پڑھایا بلکہ ان کی دینی و اخلاقی تربیت اور تزکیۂ نفس کے لئے ایک مستحکم خانقاہی نظام کی داغ بیل بھی ڈالی۔ یہ نظام آج بھی جاری و ساری ہے۔ اس پر انگلی اٹھانے والوں کو ایک بار اتنا ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اگر ان مشائخ عظام کے آباو اجداد نبی کریمؐ کی سنت پر عمل پیرا ہوکر ہجرت نہ کرتے تو ہم آج بھی کفر و شرک کی ظلمتوں میں بھٹک رہے ہوتے۔
سیمینار سے خانوادہ حضرت سلطان باہوؒ صاحبزادہ سلطان احمد علی‘سجادہ نشین آستانۂ عالیہ شرقپور شریف صاحبزادہ ولید احمد جواد شرقپوری‘ سجادہ نشین آستانۂ عالیہ سندر شریف پیر سید محمد حبیب عرفانی‘معروف دانشور جسٹس(ر)نذیر احمد غازی‘اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سید قمر علی زیدی‘پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد سعیدی‘ پروفیسر محمد ظفر اللہ شفیق‘علامہ محمد ضیاء الحق نقشبندی اور ملک محبوب الرسول قادری نے بھی خطاب کیا۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری شاہد رشید نے مقررین و حاضرین سے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے اِس عزم کا اظہار کیا کہ اِس قومی نظریاتی ادار ے کے پلیٹ فارم سے جدوجہد آزادی میں مشائخ عظام و علمائے حق کے کردار کو اُجاگر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ سیمینار میںسجادہ نشین آستانۂ عالیہ پاکپتن شریف پیر دیوان احمد مسعود چشتی‘سجادہ نشین آستانۂ عالیہ تونسہ شریف پیر سید نصر المحمود تونسوی‘ سجادہ نشین دربارِ عالیہ کچھوچھہ شریف پیر سید محی الدین محمد اشرف الجیلانی‘ درگاہِ عالیہ مانکی شریف سے صاحبزادہ محمد جنید‘ آستانۂ عالیہ توکلیہ حبیبیہ سے پیر سید شفیق احمد شاہ توکلی‘ سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان قاری محمد زوار بہادر‘ آستانۂ عالیہ ٹوبہ قلندر بہاولنگر پیر سید رشید احمد شاہ‘پیر غلام نصیر الدین چراغ‘ علامہ عبدالمجید‘ پیر سید ارشد حسین گردیزی‘ انعام الحسنین کاظمی‘ مفتی محمد عباس قادری اور آستانۂ عالیہ بھرچونڈی شریف و دیگر خانقاہوں کے وابستگان کی کثیر تعداد موجود تھی۔سیمینار کی نظامت کے فرائض حافظ الملّت فائونڈیشن پنجاب کے صدر سید احسان احمد گیلانی نے بڑی عمدگی سے نبھائے جبکہ بغداد شریف سے تشریف لائے ہوئے الشیخ سید محمد لطیف البرزنجی نے ملک و ملت کی ترقی و سلامتی کیلئے دعا کرائی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024