آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑا؟
حکومت کو کم سے کم دو یا اگر بہت بھی کم کیا جائے تو ایک سال کا وقت بتانا چاہیے تھاتاکہ کچھ تو سٹیرنگ پر ہاتھ جمایا جا سکتا اس کے بعد گاڑی چلنی ہے تب بات سننا بھی اور کرنا بھی اچھا تھا۔مگر اس تمام کے باجود ہمیں ،ہمیں کیا پوری قوم کو موجودہ وزیر اعظم عمران خان سے توقع ہے کہ وہ اپنے وعدوں دعووں کو اپنی پانچ سالہ عوامی مینڈیٹ میں پورا ضرور کر دکھائیں گے اور وہ کر دکھائیں گے جس کا آج دن تک وعدہ تو کیا جاتا رہا مگر عملاً ہوا کچھ نہیں۔دیکھا جائے تو سابقہ ادوار میں قرضہ لینے اور موجودہ حکومت کے قرضہ لینے میں بہت فرق ہے ،اگر قرضہ لے کر غیر ضروری پراجیکٹس جو مسائل کے حل میں بھی ناکام ثابت ہوں شروع کئے جائیںاور دوسرا یہ کہ قرضہ حاصل کر کہ منی لانڈرنگ کی نذر کردیا جائے توظاہری سی بات ہے کہ ایسا قرضہ ملک و قوم دونوں کیلئے نہ صرف نقصان دہہ بلکہ باعث شرم ہے ،مگر اگر وقتی طور پر قرضہ لے کر کاروبار میں لگا کر منافع کمایا جائے اور پھر اس کے بعد واپس کر دیاجائے تو قابل فخر ہے ،اور اب لگتا یہی ہے کہ ایسا ہی ہونے جارہا ہے ،وقتی طور پر گوکہ ملک کو مشکل حالات کا سامنا ہے مگرامید واثق ہے کہ اس کے بعد پاکستان کی نہ صر ف قرض لینے سے جان چھوٹ جائے گی بلکہ دوسروں کو قرضہ دینے والا ملک بن جائے گا انشااللہ جیسے ساٹھ کی دھائی میں دوسروں کو قرضہ دیتا رہا تھا۔ (محمد صباح الدین ، آخری حصہ)