جنرل الیکشن کے بعد ہمیشہ ”بڑے ضمنی انتخاب“ ہوتے ہیں اور عمومی طور پر متوقع نتائج برسر اقتدار پارٹی کے حصے میں ہی آتے ہیں، گزشتہ روز بھی جنرل انتخابات کے بعد چھوڑی ہوئی نشستوں، یا جن سیٹوں پر انتخابات ملتوی ہوئے ان میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے 35 حلقوں (11قومی اور 24صوبائی) میں پولنگ ہوئی۔ تادم تحریر ان سیٹوں پر نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں اور قومی اسمبلی کی 11نشستوں میں سے 4تحریک انصاف 4مسلم لیگ ن ، 2ق لیگ کے حصے میں آئیں جبکہ ایک سیٹ جے یو آئی کے حصے میں آنے کا امکان ہے۔ نتائج مختلف بھی ہو سکتے ہیں کیوں کہ یہ نتائج کم و بیش 50فیصد ووٹوں کی گنتی کے ہیں۔ اگر ہم لاہور کی بات کریں تو یہاں چار حلقوں میں الیکشن ہو ئے، ضمنی الیکشن کے لیے 12 لاکھ 14 ہزار بیلٹ پیپرز چھاپے گئے جبکہ کل 11 لاکھ 75 ہزار 832 ووٹرزتھے۔ لاہور میں ضمنی الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹرز کی تعداد حلقہ این اے 124 میں ہے جہاں پر 5 لاکھ 35 ہزار 172 ووٹرز تھے۔ جبکہ عمران خان کی خالی کردہ نشست این اے 131 میں ووٹرز کی کل تعداد 3 لاکھ 65 ہزار 677 تھی۔ سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں پی پی 164 میں کل ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 37 ہزار 906 جبکہ پی پی 165 میں ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 37 ہزار 77 تھی۔لاہور میں ضمنی الیکشن کے لیے کل 881 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے تھے، جن میں 632 پولنگ اسٹیشنز جس میں 150 پولنگ اسٹیشنز انتہائی حساس قرار دیے گئے تھے۔اسلام آباد سے حلقے این اے 53 میں ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 13 ہزار سے زائد ہے اور یہاں 11 امیدوار مد مقابل تھے، یہ حلقہ وزیراعظم عمران خان کے نشست چھوڑنے پر خالی ہوا تھا۔
الیکشن کمیشن کے بقول ضمنی الیکشن کیلئے 95 لاکھ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے تھے۔ اس انتخاب کے دوران 641 امیدوار مقابلہ کریں گے۔ ان حلقوں میں 92 لاکھ 83 ہزار 74 ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، جس کے لئے 7 ہزار 489 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں۔ مختلف حلقوں کے1727 پولنگ اسٹیشنوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 7364 سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کے لئے پاس کوڈ جاری کیے گئے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ 80فیصد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ووٹنگ کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ووٹنگ پینل متعارف کرایا گیاتھا، جس پر رجسٹریشن کرانے کے اہل وہی افراد تھے جن کے پاس ”نائیکوپ“ کارڈ ہو، ان کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ ہو اور وہ مذکورہ حلقے کے رجسٹرڈ ووٹر بھی ہوں۔
ان انتخابات میں 40 ہزار سے زائد پاک فوج کے جوانوں کو پولنگ اسٹیشنز میں تعینات کیا گیا ہے جب کہ ایک لاکھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن نے وزارت توانائی کو ہدایت بھی جاری کی ہے کہ پولنگ کے دوران متعلقہ حلقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہ کی جائے۔اب ہم لے چلتے ہیں اگلے مرحلے کی طرف۔ اگر ہم بات کرِیں قومی اسمبلی کے بڑے مقابلوں کی تو این اے 35 بنوں سے ایم ایم اے کے زاہد اکرم درانی سابق وزیر اعلی کے پی کے اکرم درانی کے بیٹے ہیں جو پی ٹی آئی کے نسیم علی شاہ کے مدمقابل ہیں۔ این اے56 اٹک سے پی ٹی آئی کے خرم علی خان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے ملک سہیل خان سے جاری ہے۔ یہ نشست میجر (ر) طاہر صادق کے چھوڑنے پر خالی ہوئی تھی۔ این اے 60 راولپنڈی سے پی ٹی آئی کے شیخ راشد شفیق جو کہ حالیہ وفاقی وزیر برائے ریلوے شیخ رشید کے بھتیجے ہیں۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے سجاد خان سے ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا اس حلقے میں الیکشن حنیف عباسی کوعمر قید کی سزا ہونے کے باعث منسوخ کیا گیا تھا۔ این اے 63 راولپنڈی سے پی ٹی آئی کے منصورحیات خان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے عقیل ملک سے ہے۔ این اے 69 گجرات سے مسلم لیگ ق کے مونس الہٰی جو کہ اسپیکرپنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالہی کے صاحبزادے ہیں ان کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے عمران ظفر سے ہو رہا ہے۔ این اے 124 لاہور سے مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی کا مقابلہ پی ٹی آئی کے غلام محی الدین سے ہوگا۔ این اے 131 لاہور سے مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ہمایوں اختر خان سے ٹاکرا جاری ہے۔ یہ حلقہ وزیراعظم عمران خان کے چھوڑنے کے بعد خالی ہوا تھا۔ کراچی کی صورتحال بھی دلچسپ ہے این اے 243 کراچی سے پی ٹی آئی کے عالمگیر خان کا مقابلہ ایم کیو ایم کے عامر چشتی سے ہے، بظاہر لگ یہی رہا ہے کہ عالمگیر سیٹ جیت چکے ہیں۔
اسی طرح دوسری طرف 26 صوبائی اسمبلیوں میں خیبر پختونخواہ کے بڑے مقابلے قارئین کو بتاتاچلوں کہ پی کے 78 پشاور سے کارنر میٹنگ میں جاں بحق ہونے والے ہارون بلور کی بیگم ثمرہارون بلور کا مقابلہ پی ٹی آئی کے محمد عرفان سے ہے۔ پی کے 97 ڈیرہ اسماعیل خان سے پیپلز پارٹی کے فرحان افضل ملک کا مقابلہ پی ٹی آئی کے فیصل امین گنڈا پورسے ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی عبیدالرحمان تحریک انصاف کے حق میں دستبردار ہوگئے ہیں۔ پی کے 99 ڈیرہ اسماعیل خان سے پی ٹی آئی کے آغاز اکرام اللہ جو کہ سردار اکرام اللہ گنڈا پور کے بیٹے ہیں۔ کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے اکبر خان سے ہے۔ یاد رہے کہ سردار اکرام اللہ گنڈاپورالیکشن سے قبل 22 جولائی کو دھماکے میں جاں بحق ہوئے تھے۔۔ جس کے باعث اس حلقے میں الیکشن منسوخ کیے گئے تھے۔بلوچستان کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ پی بی 35 مستونگ سے آزاد امیدوار نواب اسلم رئیسانی کا مقابلہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سردار نور احمد بنگلزئی سے ہے۔ نواب مستونگ دھماکے میں جاں بحق سراج رئیسانی کے بھائی ہیں۔ پی بی 40 خضدار سے آزاد امیدوار میر شفیق الرحمان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے قدیر احمد سے ہے۔پنجاب کی صورتحال بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ واضح رہے کہ پی پی 118 ٹوبہ ٹیک سنگھ سے پی ٹی آئی کے اسد زمان چیمہ کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے فوزیہ وڑائچ سے ہو رہا ہے۔ پی پی 201 ساہیوال سے پی ٹی آئی کے سید صمصام کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے شفقت علی چیمہ سے۔ پی پی 222 ملتان سے پی ٹی آئی کے سہیل احمد نون کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے مہدی عباس خان سے۔ پی پی 292 ڈی جی خان سے مسلم لیگ ن کے اویس لغاری کا مقابلہ پی ٹی آئی کے سردار مقصود خان لغاری سے ہو رہا ہے۔
اس الیکشن کی سب سے اہم اور خاص بات یہ تھی کہ بہت سے حلقوں میں حکومت کے خلاف نواز لیگ اور پیپلزپارٹی ایک ہو گئیں۔ چلیں دونوں حریف سیاسی جماعتیں کسی طرح تو اکٹھی ہوئیں۔ اس سے بظاہر لگتا یہی ہے کہ تحریک انصاف ان دونوں جماعتوں کو خاصا ٹف ٹائم دے رہی ہے۔ لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ذاتی مفادات کے لیے اکٹھی ہونے والی دونوں جماعتیں زیادہ دیر اکٹھی نہیں رہتیں، اور اب مجموعی صورتحال کے مطابق اگر تحریک انصاف کی جیت یقینی ہوئی تو ان دونوں جماعتوں نے ایک بار پھر دھاندلی کا شور مچانا ہے اس کے لیے بھی ان کے مشترکہ مفادات زیادہ دور نہیں ہیں!
(یہ کالم حتمی نتائج آنے سے پہلے لکھا گیا)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024