عمران خان اقتدار حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے انہوں نے کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا یا جسے عوام کی پذیرائی حاصل ہوئی۔ کرپشن تو کیا ختم کرنی تھی الٹی عوام کی مشقیں کسنی شروع کردی۔ یہ ان کا ہی بیان تھا ہم بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اپنے دوست ممالک سے رجو ع کریں گے‘ یہ بھی خوشخبری سنائی گئی کہ سعودی عرب نے تین سال کے لیے مفت تیل اور دس ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ عمران خان کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ جو بات کہتے ہیں اس قائم نہیں رہتے۔ چند دنوں بعد اسی بات کے خلاف عمل بھی کرتے ہیں‘ ان کے غلط فیصلوں اور عوام دشمن پالیسیوں کی بنا پر ڈالر کی قیمت میں یکدم 10 روپے کااضافے نے عوام کا کچومر نکال دیاہے۔ یہ اضافہ پاکستانی قرضوں میں 900 ارب اضافے کا باعث بنا بلکہ اندرون ملک مہنگائی کا ایک نہ ختم ہونے والا نیا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔ حج اور عمرے کی پیکچ میں اضافے کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کے کرایے بڑھ رہے ہیں۔ یہ بھی شنید ہے کہ یکم نومبر سے پٹرول کی قیمتوں میں بیس روپے فی لٹر اضافہ کیا جارہا ہے۔ صرف دو مہینے میں 17 کھرب قرض مالیاتی اداروںسے حاصل کیاجاچکا ہے۔ سٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں پر الگ موت کا سکوت طاری ہے۔ نواز شریف دور میں یہی سٹاک مارکیٹ دنیا کی بہترین قرار پائی تھی تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوتے ہی اس کا وجود خطرے میں دکھائی دیتا ہے۔ سرمایہ کار بھاگ چکے ہیں‘ جوبچے وہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہیں۔ سی پیک جس کے تحت صرف بلوچستان میں ایک ہزار کلومیٹر سڑکوںکی تعمیرکی گئی‘ گیارہ ہزار میگا واٹ بجلی کے پروجیکٹ لگے‘ پاکستانی کرنسی کو 110 سے نیچے لاکر 100روپے تک محدود کردیا گیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نواز شریف کا دور عمرانی دور سے ایک ہزار گنا زیادہ بہتر‘ ترقی یافتہ اور عوام دوست تھا تو غلط نہ ہوگا‘ ملک گیر سطح پرانفراسٹرکچر تعمیر ہورہا تھا‘ معاشی اشاریے نہایت مثبت تھے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو بھول چکا تھا۔ پھراچانک پانامہ سکینڈل کا سہارا لے کر عمران خان نے اتنا شور مچایا کہ پوری قوم یہ سمجھ بیٹھی کہ عمران خان واقعی صحیح کہتا ہے ‘ اب عمران خان کا جو روپ قوم کے سامنے آیا ہے اسے دیکھ کر ڈر لگتا ہے ‘ اچھے دنوں کی امید تھی ‘ نہایت برے دن شروع ہوگئے ‘ مہنگائی کا ایک ایسا طوفان اٹھنے والا ہے جو غریب اور متوسط طبقے کے تمام افراد کو تنکوں کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ اس پر عمران فرماتے ہیں کہ قوم نہ گھبرائے جلد ہی اچھے دن آنے والے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ تحریک انصاف کے پاس نہ حکمت عملی ہے‘ نہ باصلاحیت افراد کی ٹیم اور نہ ہی معاشی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت۔ وہ احتساب بھی کرتے ہیں تو دوسروں کا۔ اپنے دامن میں کتنے ہی کرپٹ اور لیٹرے چھپا رکھے ہیں۔ اب نیا پاکستان ہاﺅسنگ پروگرام کے نام پر نیا فراڈ شروع کر دیاگیا ہے۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیرکے لیے 40 ارب کہاں سے آئیں گے جبکہ اینٹوں‘ سیمنٹ اور سریا کی قیمتوں میں 100فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ صرف عوام کو لوٹنے کا پروگرام ہے جو لوگ پیسہ جمع کروائیںگے ان کے نصیب میں رونا ہی لکھ دیا جائے گا۔ تاریخ شاہد ہے کہ باتوںاور تقریروں سے حالات نہیں بدلتے‘ اس کے عملی طور پر بروقت اور موِثر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ سی پیک جس میں روس‘ جرمنی‘ ترکی‘ ایران اور وسطی ایشیائی ریاستیںشریک ہو رہی تھیں۔ معاشی سرگرمیوں کی رفتار کو دیکھتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے چند ہی سالوںمیں پاکستان دنیا بھر کے رابطوں کا واحد مرکز بن جائے گا‘ ترقی و خوشحال کے سر چشمے وطن کے ہر گوشے سے پھوٹیں گے۔ افسوس کی بات ہے کہ عمران خان اپنی جذباتی تقریروں چین جیسے عظیم دوست کو بھی ناراض کررہے ہیں‘ اگر چین بھی ناراض ہوگیا تو عمران خان کا نیا پاکستان ہی پاکستانی قوم کے لیے ایک ایسی دلدل ثابت ہوگا جس میں ترقی و خوشحالی کے تمام سرچشمے یکے بعد دیگرے دفن ہو جائیں گے اور نیا پاکستان بنانے والوں کو سوائے شرمندگی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اچھے خواب ہر کوئی دیکھ لیتا۔ ان خوابوں میں رنگ بھرنے کا وژن اور جذبہ صرف اور صرف نواز شریف کے پاس ہے۔ وہ نواز شریف جسے کبھی معمار پاکستان کے لقب سے بھی پکارا جاتا تھا۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024