نصف صدی بعد سائیکل رکشہ کی سواری
ویت نام میں اپنے مختصر سفر کے دوران جو کلمہ ہمارے وردِ زبان رہا وہ یہ تھا__کھانا، کھانا۔ہمارے نقطہ¿ نظر سے وہاں کھانے کی کوئی چیز تھی ہی نہیں۔ہو ٹلوں کے اپنے ”مینو“ طے شدہ تھے۔کسی کسی میں آلو کے قتلے(Fries)شامل ہوتے۔ہم بھوک مٹانے کی خاطرپلیٹ بھر کر یہ قتلے منگاتے تو منع کردیا جاتا کہ آپ کو” مینو“کے سب آئیٹم یعنی کیکڑے کا سُوپ،مشتبہ قسم کی بدبودار مچھلی کا ٹکڑا وغیرہ بھی لازماً لینا ہوگا جن کے ساتھ آلو کے دوچار قتلے مل جائیں گے۔یہاں ”وغیرہ“کی تفصیلات سے ہم اس لیے گریز کر رہے ہیں کہ انھیں پڑھ کر آپ کا جی متلانے لگے گا۔موٹی سویّاں(Spaghetti)ہر ڈش کا اٹوٹ انگ ہوتی ہیں جن کا کھانا (ہمارے جیسے کے لےے)”ڈان“ کو پکڑنے کے مترادف تھا یعنی مشکل ہی نہیں،ناممکن تھا۔وہاں سحروافطار کا اہتمام نہیں ہوسکتا تھا ورنہ ہم کچھ ثواب کمالیتے۔ہوٹلوں میں صبح کاناشتہ دیکھ کر غالب کا مصرع یاد آتا ع ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے۔ایک اچھے خاصے ہوٹل میں تو چائے کا بھی کال تھا۔اس کی جگہ کسی پودے کی پودینے کے برارکالی پتیوں کا جوشاندہ تھا جسے دیکھنے کوبھی جی نہیں چاہ رہا تھا۔ایسے مایوس کن حالات میںجب ہم ہوچی مِنھ کے مقبرے کی ”زیارت“ سے فارغ ہوکردوپہر کے قریب اپنے ہوٹل لوٹے تو مسٹروِن کی ایک فون کال نے ہمیں پاک سر زمین کی طرح شادباد کردیا۔وہ کہہ رہے تھے”تیار رہیے،میں آپ کو انڈین ہوٹل میں لنچ کرانے لے جارہاص ہوں۔“ انڈین ہوٹل کا مطلب یہ تھا کہ گوشت کو چھوڑ کر ہم وہاں دال سبزی،چپاتی/ تندوری روٹی کھا سکتے تھے کیونکہ ہمارا نظامِ ہضم کئی دن سے نوحہ کناں تھا کہ
غم و غصہ ہے حصے میں میرے
اب معیشت ہے ان ہی کھانوں پر
....................................(میر)
انڈین ہوٹل(جس کا کوئی دھارمِک سا نام تھا)بہت بڑا اور صاف ستھرا تھا۔توقع تو نہیں تھی لیکن ہم نے ویٹر سے ایسے ہی پوچھ لیا”تمھارے کھانوں میں گوشت حلال ہوتا ہے؟“اس نے کہا”سر جی، سو فی صد۔یقین نہ آئے تو آپ سامنے کھڑے ہوئے مسلمان ویٹر سے پوچھ لیں۔“ہم نے اس کی بات کا یقین کر لیا۔یوں بھی باہر جاکر ہم کھانے کے معاملے میں (بے جا) تردّد اور تجسّس کے قائل نہیں۔ہم نے آرام سے قورمہ،ماش کی دال ،آلو قیمہ اور تندوری نان کا آرڈر دیا۔کھانے کا معیار ٹھیک ہی تھا۔کھانے کے بعد پینے کا مرحلہ آیا تو ہم نے لسّی منگائی۔بس یہیں ہم سے چُوک ہوگئی۔جوکچھ ہمیں پلایا گیا وہ لسّی نہیں بلکہ گلے کے لیے ”کسّی“(کدال) تھی۔یوں معلوم ہوتا تھا کہ ٹھنڈے پانی کے گلاس میں دو چمچے چینی اور ایک چمچہ دہی ڈال کر گھو ل دیا گیا تھا۔پہلا گھونٹ بمشکل حلق سے اتارا۔شکر ہے الائچی فراہم کردی گئی جس نے بد ذائقگی کے تاثر کو زائل کردیااور ہم نے کئی دن بعدشکم سیر ہو کر کھانے کا شکراداکیا۔اگر مسٹر وِن ساتھ نہ ہوتے تو ہم رات کا کھانا بھی پیک کروا لیتے لیکن ہم ایسا نہ کر سکے ورنہ وِن صاحب سمجھتے یہ لوگ مفت خورے ہیں۔ملک سے باہر جاکر ہم اور کسی چیز کا خیال رکھیں یا نہ رکھیں،خودی کو نیچے نہیں گرنے دیتے۔شام کو مسٹروِن ہمیں شہر کی سیر کو لے گئے۔شہر کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا مستطیل نما تالاب تھا۔ درمیان میں ایک خوبصورت پگو ڈا تھا جس کے سنہری بر جوں پر سورج کی نرم کرنیں پڑ کر آنکھوں کو خیرہ کررہی تھیں۔ ایسا ہی تالاب اور بیچ میں مندر ہم نے نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں دیکھا تھا۔ تالاب میں کشتی رانی بھی ہورہی تھی ۔مچھلیاں بڑی تعداد میں تھیں مگر شکار پر پابندی تھی۔ تالاب کی سیر کے لیے مسٹر وِن نے ہمیں دو آپشن (اختیارات) دیے۔ یاتو کشتی چلاتے ہوئے پگوڈے تک جائیں اور کچھ دیر وہاں گزار کر آئیں یا ہلکی رفتار سے چلنے والی دوسواری کی خوبصورت سجی سجائی سائکل رکشہ میں بیٹھ کر باہر سے چاروںطرف کا چکر لگائیں۔ ہم نے دوسرے آپشن کا انتخاب کیا۔ اس طرح ہم بائیں طرف تالاب کو دیکھتے ہوئے دائیں طرف شہر کی رونقوں کا نظارہ بھی کر سکتے تھے۔ ہمارایہ انتخاب بہت سود مند ثابت ہوا۔ بازاروں میں زبردست رونق تھی۔فٹ پاتھ پر ہمارے یہاں کی طرح پتھارے والوں کا قبضہ تھا۔ کچھ لوگ گھوم پھر کر یا کھڑے رہ کر چھوٹا موٹا سامان بیچ رہے تھے۔ تالاب کے دو اطراف میں کسی بھی قسم کی موٹر والی گاڑیوں پر پابندی تھی۔ صرف سائکل یا سائکل رکشہ چلانے کی اجازت تھی۔ اس سے ایک تو ماحول کا تحظ مقصود تھا دوسرے کم گاڑیوں کی وجہ سے سیاح تالاب اور اردگرد کے جلووں کا پورا لطف اٹھاسکتے تھے۔ سیاحوں کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ وہ کسی خاص دلچسپی کے مقام پر رکشہ رکواکر تھوڑی دیر کے لیے کھیل تماشے میں شریک ہوسکتے تھے یا تصویر کھنچواسکتے تھے۔ ہم نے بھی ایک کامیڈین کے ساتھ تصویر کھنچوائی جو فٹ پاتھ پرآئنسٹائن کا روپ دھار ے ایک اسٹول پر کھڑے ہوکرلیکچر دے رہے تھے۔ نیچے فرش پر ایک ہیٹ الٹا رکھا ہوا تھا جس میں تماشا ئی حسبِ توفیق قہقہوں کا معاوضہ ڈال رہے تھے۔ لوگ ان کے ہر جملے پر لوٹ پوٹ ہورہے تھے جبکہ ہم اور ہمارا پوتا فریس قریشی ہو نقوں کی طرح کھڑے تھے اس لیے کہ لیکچر مقامی زبان میں تھا۔ تالاب کی دوسرے جانب جاکر ہم نے ایک بار پھر رکشہ رکوائی اور کون آئس کریم خریدی ۔ اپنے غذائی معمول کی یہ خلاف ورزی ہم بیرونِ ملک جاکر ضرور کرتے ہیں ۔ خاص طور پر اس وقت جب ”پاسبانِ عقل “ (بیویص) ساتھ نہ ہو ۔سڑک کا یہ حصہ بھی پُرسکون تھا اس لیے رکشہ والے ”بزرگ“ نے ایک گانا چھیڑدیا۔ یہ ایک اشارہ تھا کہ انھیں ”ٹِپ“ ٹھیک ٹھاک دی جائے۔ جب رکشہ شاہراہ کی طرف آیا تو گاڑیوں کا شور کانوں کے پردے پھاڑ نے لگا ۔ یہ ایک ہشت رویہ شاہراہ تھی۔
تالاب اگرچہ سڑک کے بائیں جانب تھا لیکن اس کے آگے گھنے درخت لگایے گئے تھے تاکہ گاڑیاں چلانے کے دوران ڈرائیور کی توجہ نہ بٹے۔ اسے شہر ی منصوبہ بندی کا کمال قرار دیا جائے گاکہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی انسانی جسم و جان اور ماحول کی حفاظت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جب رکشہ چوتھے کنارے کی طرف مڑی تو اس نسبتہً چھوٹی سڑک پر ہر قسم کی گاڑیاں چل رہی تھیںاور تالاب پیڑوں میں چھپاص ہوا تھا۔ یہ حسین اور یاد گار سفر تقریباً ایک گھنٹے میں ختم ہوا۔ ہم نے نصف صدی بعد رکشہ کی سواری کی تھی جبکہ فریس کی زندگی کا یہ پہلا تجربہ تھا لہٰذا دونوں خوب لطف اندوز ہوئے۔ مسڑوِن کشہ والے کو کرایہ پہلے ہی دے چکے تھے ۔ ہم نے اپنی طرف سے انھیں ”ٹِپ“ دی جو شاید ان کی طبع نازک پر گراں گزری۔ ہمیں لندن کا وہ ٹیکسی ڈرائیور یاد آگیا جس کو سفر کے اختتام پر مسافر خاتون نے دوپاﺅنڈبطورٹِپ دیے تو اس نے براسا منہ بنا کروہ جیب میں ڈال لیے۔ خاتون نے اس سے پوچھا "Is it not correct?"(کیایہ صحیح نہیں ہے؟) ڈرائیور نے جواب دیا"It's correct, Mam,but it's not right."(محترمہ یہ صحیح ہے ،لیکن ٹھیک نہیں ہے۔)