تباہی کے ذمہ دار ، ناقص منصوبہ بندی
ہمارا ملک پاکستان اس وقت شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ ماضی کی حکومتوں کی جانب سے عالمی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر لیئے گئے اربوں ڈالر کے قرضے ہیں جن کا سود ادا کرنے کیلئے بھی ہمارے پاس رقم نہیں ہے، جس کے باعث سود کی ادائیگی کیلئے بھی مزید قرضہ لینا مجبوری بن گیا ہے۔ جہاں تک عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کا تعلق ہے تو صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے متعدد ممالک اپنے معاشی مسائل حل کرنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتے ہیں، جس کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں لیکن جن ممالک نے بھی قرضے لیئے وہ انہوں نے اپنے ملک میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیلئے استعمال کیئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ تباہ ہونیوالا اور ایٹم بموں کا نشانہ بننے والا دنیا کا واحد ملک جاپان ہے جس نے ملک کی بہتری اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کیلئے ان مالیاتی اداروں اور ممالک سے قرضے لیئے جنہوں نے جاپان کو تباہ کیا تھا امریکا نے جاپان پر ایٹم بم مارے تھے اور جنگ ختم ہونے کے تھوڑے عرصے بعد امریکا کے ہی ایک فوجی جنرل غالبا اس کا نام میک آرتھر تھا اس نے ان مالیاتی اداروں سے قرضہ لیکر جاپان کی تعمیر نو میں سب سے اہم کردار ادا کیا اور ان قرضوں سے حاصل ہونیوالی رقوم کو عیش و عیاشی میں نہیں اڑایا بلکہ منصوبہ بندی کے ذریعے پیداواری صلاحیتوں میں بھرپور اضافہ کیا اور جاپان بہت جلد ترقی کی راہ پر گامزن ہوا۔ ان قرضوں کو ایسے مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا گیا جس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ نہ ہو اور اس رقم میں اضافے کی صلاحیت نہ ہو۔ اسی طرح بھارت نے بھی ہم سے زیاہ عالمی اداروں سے قرضے لیئے اور اپنے ملک کی ترقی کیلئے مثبت انداز میں استعمال کیئے اور بھی کئی ممالک ہیں جنہوں نے ان قرضوں کے مثبت و موثر استعمال سے ترقی حاصل کی لیکن ہمارے ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ قرضے تو بھرپور لیئے عالمی اداروں کی جائزو ناجائز شرائط مان کر غریب عوام پر محصولات کی بارش کی اور ان قرضوں کو صرف اپنی خواہشات اور اپنے سیاسی مفادات کے حصول کیلئے استعمال کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرضوں کی رقوم سے ہماری پیداواری صلاحیت و نمو میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور ہم قرضوں کی اقساط کی ادائیگی کی صلاحیت سے محروم ہوتے چلے گئے اور آج ہمیں سود کی ادائیگی کیلئے بھی بھاری سود پر قرضے لینے کی مجبوری ہے۔ ہمارے ملک کے اہم ادارے ان حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث تباہ ہوتے چلے گئے جس کے باعث ایک جانب شرح نمو میں اضافہ نہیں ہوا دوسری جانب ادارے تباہ و برباد ہوگئے جس کی اہم مثالیں پاکستان اسٹیل ملز، پی آئی اے جیسے ادارے ہیں جن کی تنخواہوں کیلئے بھی اربوں روپیہ حکومت ادا کررہی ہے۔ ان اداروں کی تباہی سے جہاں مالی خسارہ میں اضافہ ہوا وہاں بیروزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے اور آج ہم شدید بحران کا شکار ہیں۔ عمران خان کی حکومت کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نواز دور میں سڑکوں اور ٹرینوں کا جو نیٹ ورک بنایا گیا اس پر عالمی اداروں سے لیئے گئے کھربوں روپے قرض کی رقم استعمال کی گئی اور اس کے باوجود یہ منصوبے، یہ ٹرینیں چلانے کیلئے سالانہ اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نقصان دہ اور غیر پیداواری منصوبوں کے باعث قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوتا گیا۔ قوم حیرت کرتی ہے کہ ملک بھر میں چلنے والی نجی شعبے کی اسٹیل ملز سالانہ کروڑوں اور اربوں روپیہ منافع بھی دے رہی ہیں اور ہزاروں افراد بھی یہاں روزگار حاصل کررہے ہیں اسی طرح پی آئی اے جیسے عالمی شہرت یافتہ اداروں کو بھی ناقص منصوبہ بندی اور سیاست کا شکار کرنے کے باعث تباہ کردیا گیا اور آج بھی
اس کو چلانے کیلئے حکومت کو اربوں روپے کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے اور ہر ماہ یہ نقصان دیتا ہے۔ بہرحال اب عمران خان کی حکومت ہے وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح ناقص منصوبہ بندی اور کرپشن کا شور تو بہت کررہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ موثر منصوبہ بندی کیسے کرتے ہیں۔عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا مجبوری ہے۔ قرض لیا جائے لیکن اس کو موثر استعمال کرنے اور شرح نمو میں اضافہ کیلئے اسے کیسے استعمال کیا جائے، یہ اب ان کی ذمہ داری ہے۔ عمران خان نے قوم کو یقین تو دلادیا ہے کہ وہ جلد اس صورتحال پر قابو پالیں گے، اسی میں ان کی کامیابی ہے۔ اگر قابو نہ پاسکے اور اپوزیشن کا ڈنڈا مضبوط ہوتا گیا تو پھر حکومت کی مدت کا تعین کرنا مشکل ہوگا۔ عمران خان جو ہر وقت احتساب، احتساب کی رٹ لگائے ہوئے ہیں بھائی اب احتساب کرنے والے اداروں کو آزادانہ طورپر اپنا کام کرنے دیں، جن کا جو کام ہے وہ کرنے دیں، آپ کا کام بہترین منصوبہ بندی کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔ آپ اس پر توجہ دیں۔ یہ جو آپ بار بار کہتے ہیں میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا اور اس کے ساتھ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گرفتار کرلیا جاتا ہے تو اس طرح کی بیان بازی سے آپ اور آپ کی حکومت کے بارے میں منفی تاثر جاتا ہے اور جو لوگ کہتے ہیں احتساب نہیں انتقام لیا جارہا ہے، آپ کا یہی مطالبہ تھا ناکہ اداروں کو آزادانہ طورپر کام کرنے دیا جائے تو اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ تمام ادارے آزادانہ طورپر کام کریں۔ جس طرح ڈیموں کی تعمیر کیلئے چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعلان و اقدامات کے آپ بھی معترف اور حامی ہیں اور آپ بھی ڈیم فنڈز کے حصول کیلئے چیف جسٹس کے شانہ بشانہ کام کررہے ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مثبت و موثر طورپر قوم کی خدمت کرنے کا موقع عطا کرے۔ آپ اور کام کریں اور اداروں کو اپنا کام کرنے دیں، ایسا ماحول تو ماضی میں کسی حکومت کو نصیب نہیں ہوا، پ اس اعتبار سے بہت خوش نصیب ہیں، نیت ثابت منزل آسان۔