اقتصادیات کا جن قابو سے باہر
شہزاد چغتائی
اسٹاک مارکیٹ میں کاروباری ہفتہ کے پہلے دن ہی سرمایہ کاروںکے 238 ارب روپے ڈوب گئے اور بڑے سرمایہ کاروں نے پیسہ نکالناشروع کردیا۔ ایک دن میں 100 انڈیکس 1328 پوائنٹس گرگیا جو کہ عمران حکومت میں ایک ریکارڈہے۔ اس وقت اسٹاک مارکیٹ کوسنبھالنے کے لئے کم ازکم 100 ارب کی ضرورت ہے۔ اسٹاک کا انڈیکس 40 ہزار کی نفسیاتی حد سے بھی تجاوزکرکے 37 ہزارپوائنٹس پر آگیا ہے جو تشویشناک ہے۔ تجارتی حلقوں کا خیال ہے کہ اسٹاک مارکیٹ پر عالمی اثرات مرتب ہوئے ہیں‘ چین کی اسٹاک مارکیٹ بھی گر گئی ہے۔ ڈالرکی بلند ترین پرواز نے ملکی معیشت پر سوالیہ نشان لگا دیا۔ ایک جانب ڈالر 150 روپے تک پہنچنے کے خدشات ہیں تو دوسری طرف اسٹاک مارکیٹ باربارکریش ہورہی ہے‘ مہنگائی کا طوفان آگیا ہے۔ سی این جی 89 سے 104 روپے کلو ہونے کے ساتھ ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھنے کے ساتھ ہر چیز کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ جس میں 28 ارب ڈالر چلانے کے لئے درکار ہیں۔ اس وقت پاکستان کی معیشت کو بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانی21 ارب ڈالر سالانہ بھجوا رہے ہیں لیکن اقتصادیات کا جن قابو میں نہیں آرہا ہے۔ آئی ایم ایف کے سامنے سرجھکانے سے بجلی کے نرخ 21 روپے فی یونٹ تک جاسکتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو قرضہ کے لئے انڈونیشیا کے شہر مالی میں باقاعدہ درخواست دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے سبسڈی کے خاتمہ پرزوردیا ہے۔ اس وقت سبسڈی 12 سو سے 14 سو ارب تک چلی گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کویہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ چین سے ضرورت کے مطابق قرض لے اور ضرورت سے زیادہ پائوں نہ پھیلائے کیونکہ پھر ادائیگی کامسئلہ ہوگا۔ آئی ایم ایف کایہ خیال ہے جوممالک چین سے انفراسٹرکچر کے لئے قرضہ لے رہے ہیں وہ قرضہ اداکرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔اپنی ششمائی رپورٹ میں عالمی بینک نے بھی نشاندہی کی ہے کہ دو سال کے لیے پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار کم جبکہ افراط زر زیادہ رہے گا جس کی وجہ سے غربت میں کمی اور روزگارکیلئے کوئی پیش رفت نہ ہو سکے گی۔علاوہ ازیں روپیہ کی قدر مزیدکم ہو کر فی ڈالر 145 روپے تک جا سکتی ہے۔ معیشت میں بڑھتے ہوئے اسی عدم توازن کے سبب وزیراعظم عمران خان کی منظوری کے بعد پاکستان نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن آئی ایم ایف کے قرضہ سے پاکستان کی معاشی مشکلات ختم نہیں ہوںگی۔ قرضہ کے لئے آئی ایم ایف نے 20 شرائط رکھ دی ہیں۔ ڈالر کے نرخ 150 روپے لے جانے ‘ امپورٹ بل کم کرنے‘ بجلی کے ریٹ بڑھانے کے بعد پاکستان کو9 سے 10 ارب ڈالر ملیں گے جس میں سے 8 ارب ڈالر قرضوںکے سود کی نذرہوجائیں گے۔ درحقیقت پاکستان کو 36 ارب ڈالرکی ضرورت ہے۔ روپے کی قدر میں کمی سے پاکستان کاقرضہ ایک دن میں 900 ارب روپے بڑھ گیا۔ کراچی کی تاجربرادری کا موقف ہے کہ سیمنٹ اور اسٹیل پر اضافی ریگولیٹری ڈیوٹی کم کرنے سے پاکستان کی برآمدات پانچ سے 10 ارب ڈالر بڑھ سکتی ہیں۔ حکومت کے معاشی ماہرین کیلئے اچھی خبر یہ ہے کہ دوماہ کے دوران درآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ اس دوران فنانس بل کے کراچی اسٹاک ایکسچینج پر مثبت اثرات پڑے ہیں اور ایک ہفتے میں انڈیکس 400 فیصد بڑھنے سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہوئی۔ حصص بازار میں آ ٹو سیکٹر اور سیمنٹ سیکٹر کے حصص کی خریداری میں اضافہ ہواہے ۔ ترمیمی فنانس بل میں نان فائلر کو رعایت دینے کے باعث سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی ہے۔ اس سے پہلے نان فائلر پر نئی گاڑی خریدنے اور 50 لاکھ سے زائد مالیت کا گھر اپنے نام کرانے پر پابندی تھی۔ اب عارضی طور پر سرمایہ کار اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔روپے کی قدر میں حالیہ بے قدری کے بعد پاکستان دنیا کی تیسری کمزور ترین مارکیٹ بن گیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان نے کرنسی کی بے قدری میں اپنے خطے کے دیگر ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، جس کے بعد جنوبی ایشیا میں پاکستانی روپیہ سستی ترین کرنسی بن گیا ہے۔سال 1995 کے بعد پہلی بار پاکستانی کرنسی کم ترین سطح پر پہنچی ہے جب کہ ماہرین نے آئندہ دنوں میں روپے کی قدر میں مزید کمی کا خدشہ بھی ظاہر کر رکھا ہے۔