مہاراج! ایٹمی اسلحہ ہم نے شو کیس میں سجانے کیلئے نہیں رکھا
بھارتی نام نہاد سرجیکل سٹرائیک،، فوجی ترجمان کا مہم جوئی کی صورت میں دس گنا طاقت سے جواب دینے کا عزم
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے پاکستان میں عام انتخابات انتہائی شفاف اور آزاد تھے۔ لندن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا عام انتخابات میں فوج نے ممکن بنایا کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دے۔ انہوں نے کہا دہشتگردی کے خلاف جنگ میں معاشرے کے ہر طبقے نے حصہ لیا اور پاکستان میں امن و استحکام کے لیے 76 ہزار جانیں دی گئیں۔ فوج سب سے منظم ادارہ ہے ، دیگر تمام اداروں کو بھی مضبوط ہونا چاہئے، اداروں کو ملکی استحکام کی خاطر حکومتوں کا ساتھ دینا چاہئے۔ پاکستان کیخلاف عالمی سازشیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا مشرقی اور مغربی سرحد پر فوج پوری طرح مصروف ہے،اس کا کام ملک کی سلامتی برقرار رکھنا ہے،سرجیکل سٹرائیک پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا وہ صرف دیومالائی کہانی ہے،بھارت جھوٹ بول رہا ہے،کوئی بھی مہم جوئی کی گئی تو 10 گنازیادہ طاقت سے جواب کی صلاحیت رکھتے ہیں، کسی بھی مہم جوئی کی جواب میں پاکستان کی طاقت پرکوئی شک نہیں ہوناچاہیے، اس وقت پاک فوج کے پاس زیادہ تر وہ افسرہیں جوجنگوں میں لڑچکے ہیں۔
پاک فوج کی اولین اور بنیادی ذمہ داری سرحدوں کی حفاظت اور اگر دشمن ان کی طرف آنکھ اٹھائے تو اس کو منہ توڑ جواب دینا ہے۔ فوج اپنے اس فریضے سے کبھی غافل نہیں رہی۔ آئین اور قانون کے مطابق حکومت اندرونی امور میں مددکیلئے پاک فوج کو طلب کر سکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے جب بھی ایسا کیا گیا پاک فوج نے قوم کو مایوس نہیں کیا۔ فوج کو سیلاب ، زلزلوں جیسی آفات اور ٹرینوں کے حادثات اور آتشزدگی جیسے ہنگامہ خیز واقعات میں جب بھی طلب کیا گیا اس نے اپنی جانوں پر کھیل کر فرض ادا کیا۔ پولیو ورکرز کو حساس علاقوں میں تحفظ بھی پاک فوج فراہم کرتی ہے۔ مردم شماری اور عام انتخابات میں شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے بھی پاک فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات سیاسی جماعتوں کے پرزور مطالبات پر پاک فوج کی نگرانی میں کرائے گئے۔ مخصوص پارٹیوں کی طرف سے انتخابات میں پری پول رگنگ کے الزامات لگنا شروع ہو گئے تھے۔ انتخابات کے بعد ان میں تیزی آ گئی۔ انتخابات چونکہ پاک فوج کی زیر نگرانی ہوئے تھے اس لئے پاک فوج کی طرف سے ان کا دفاع ایک فطری امر ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات عائد کرنے والوں کی طرف سے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں لائے گئے۔ ایسے ثبوتوں کی فراہمی کی بات ڈی جی، آئی ایس پی آر نے کی اور ان کا انتظار حکومتی و اپوزیشن ارکان پر مشتمل قائم ہونیوالی پارلیمانی کمشن کو بھی ہے۔ کچھ جرنیلوں کی طرف سے جمہوریت کش اقدامات ضرور سامنے آئے مگر پاک فوج کا مجموعی کردار جمہوریت کی سپورٹ اور مضبوطی کیلئے مثالی بھی رہا ہے۔ ایسے ہی کردار کے باعث وزیراعظم بینظیر بھٹو نے فوج کو تمغۂ جمہوریت سے نوازا تھا۔
ملک میں امن برقرار رکھنے کی ذمہ داری پولیس کی ہے مگر دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا پولیس کے بس کی بات نہیں تھی تو حکومت نے یہ ذمہ داری بھی پاک فوج کے سپرد کی جو ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ادا کر رہی ہے۔ اس جنگ میں پاک فوج کے 6ہزار سپوتوں سمیت70 ہزار کے قریب پاکستانی اپنی جانوں سے گزر گئے۔ دہشت گردی کیخلاف امریکہ کی سربراہی میں شروع کی گئی جنگ میں اتنی قربانیاں کسی ملک کی فوج اور عوام نے نہیں دیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پچاس کے قریب نیٹو اتحادیوں کی افواج کا مجموعی جانی نقصان بھی پاک افواج کی شہادتوں سے کہیں کم ہے۔
ملک کے اندر دہشتگردوں سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو مشرقی و مغربی سرحدوں پر چنیلجز کا سامنا رہا ہے۔ افغان سرحد پر پاکستان کیلئے خطرات میں بھی پاکستان کے بدترین دشمن کی ذہنیت کار فرما ہے۔ بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان میں مداخلت کیلئے استعمال کرتا آ رہا ہے۔ اس نے ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد کو بھی غیر محفوظ بنانے کی سازش کی۔ بھارتی بحریہ کا حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن ایران کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف سازشیں اور دہشتگردی کی پلاننگ کرتا رہا اور پھر دیدہ دلیری سے پاکستان گھس آیا جسے ہماری الرٹ ایجنسیوں نے تمام ثبوتوں سمیت دبوچ لیا۔ اس کے بعد ایران نے بھارت کا اپنے ہاں کردار محدود کردیا جبکہ امریکہ افغانستان میں بھارت کے کردار میں مزید توسیع کر رہا ہے اور پاکستان پر اس کے کردار کو تسلیم کرنے پر زور دیتا ہے لیکن پاکستان کیلئے افغانستان میں بھارت کے ’’گھس بیٹھئے‘‘ کے کردار میں اضافہ کسی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ پاکستان ، افغانستان بھارت کے گٹھ جوڑ کے تناظر میں بارڈر مینجمنٹ کے تحت دیوار اور باڑ سے پورا بارڈر سیل کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کی افغان حکومت کی طرف سے بھارت کے ایما پر شدید مخالفت کی جا رہی ہے جو ان دونوں ممالک کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔ بارڈر سیل ہونے سے پاکستان میں بھارت کی مداخلت، دہشت گردی کی سازشیں مسدود ہو سکتی ہیں۔
اُدھر بھارت نے لائن آف کنٹرول پر غیر قانونی طور پر باڑ لگا دی ہے وہ اس باڑ کی پاکستان کی سرحد تک توسیعی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ لائن آف کنٹرول مستقل حد بندی نہیں یہ سیز فائر لائن ہے، بھارت اس پر باڑ لگانے کا مجاز نہیں۔ اس کی ہماری طرف سے خشت اول ہی نہیں رکھنے دی جانی چاہئے تھی۔ ایل او سی کے آر پار کشمیریوں کے درمیان کوئی باڑ اور دیوار نہیں ہونی چاہئے۔ بھارت نے بہرحال اس جواز کے تحت باڑ لگا دی کہ پاکستان کی طرف سے دراندازی ہوتی ہے۔ یہ الزام برائے الزام ثابت ہوا۔ باڑ کی تعمیر سے قبل اور مابعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سفاک افواج کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد میں نہ صرف کوئی فرق نہیں آیا بلکہ مظفر برہان وانی کی جولائی 2016ء میں بھارتی فورسز کی طرف سے بہیمانہ تشدد سے شہادت کے بعد مزید شدت آئی ہے۔
بھارت نے بربریت کے ساتھ کشمیریوں کی جدوجہد کو دبانے کی کوشش کی کیمیائی ہتھیاروں اور پیلٹ گنز کا بے دریغ استعمال کیا گیا جس نے کشمیریوں کے جذبات کو مزیدبرگشتہ کر دیا جس کے نتیجے میں اڑی چھائونی کے واقعہ نے جنم لیا جس میں کشمیری حریت پسندوں کی ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ میں 17 بھارتی فوجی موقع پر جنم واصل ہوئے اور دو اگلے دن ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے اس کا الزام پاکستان پر عائد کیا اور چند روز بعد بھارتی فوجی قیادت کی طرف سے لائن آف کنٹرول عبور کرکے پاکستان میں سرجیکل سرائیک کے دعوے کئے جانے لگے۔ بھارتی فوج اپنے ان دعوئوں کو پارلیمنٹ میں ثابت نہ کر سکی۔ بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کے دعوئوں پر پاکستان نے سخت تردید کی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے واضح کہا تھا کہ بھارت کہ پتہ ہی نہیں سرجیکل سٹرائیک کیا ہوتی ہے۔ ہم نے کی تو بھارت اپنی نسلوں کو بتانے کیلئے نصاب میں شامل کرے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے درست کہا کہ بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کے دعوے دیوملائی کی کہانی ہے۔ یہ واقعی جھوٹ کا طوفان ہے۔ اس جھوٹ کو پھیلانے کیلئے ایک فوجی افسر نے شریک مصنف کے طور پر کتاب ’’انڈیاز موسٹ فیئرلیس۔ ٹروسٹوریز آف ماڈرن ہیروز‘‘لکھی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ 26کمانڈوز نے لائن آف کنٹرول کے پار انتہا پسندوں کے ایک کیمپ پر حملہ یعنی سرجیکل سٹرائیک کی۔ یہ لوگ دوسرے دن مشن مکمل کرکے واپس لوٹ آئے۔ ان میں سے کوئی ہلاک و زخمی نہیں ہوا جبکہ پاک فوج کے دو اہلکاروں سمیت40شدت پسند شہید ہوئے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت نے سولہ فٹ اونچی آہنی باڑ لگا رکھی ہے۔ یہ دُہری باڑ ہے درمیان میں دس پندرہ فٹ ایریا میں آہنی تاروں کے اڑھائی فٹ کے رول بچھا دیئے گئے ہیں۔ آہنی باڑ اور رولز میں ہمہ وقت کرنٹ چھوڑا جاتا ہے۔ اطراف میں بجلی کے پولز پر ہائی پاور بلب سرشام جلا دیئے جاتے ہیں۔ باڑ کے اندر سے کرنٹ کے باعث مچھر اور چوہا بھی نہیں گزر سکتا۔ بھارتی چونکہ سورمے ہیں اس لئے گزر گئے اورپٹرولنگ پر مامور پاک فوج کو نظر نہیں آئے۔ بھارت کے اعصاب پر خوف بن کر چھائے ہوئے فرضی شدت پسندوں نے ان بھارتیوں پر فائرنگ کی۔ گولیاں ان کے کانوں کے قریب سے گزرتی رہیں شاید گولی کو دیکھ کر یہ سورمے کان اِدھر اُدھر کر لیتے تھے اس لئے محفوظ رہے۔ اگلے روز یہ تسلی سے واپس چلے گئے اور پاک فوج نے ان کا سراغ لگانے کی کوشش نہیں کی۔ ایسے بودے اور عقل سے ماورا دلائل پر کون یقین کریگا؟ یہ دیو ملائی کہانی بھارت نصاب میں شامل کر دے ساتھ لکھ دے کہ کہانی کی جزیات پر مغز ماری کی ضرورت نہیں۔
بھارتی حکمران اور فوج نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کی سالگرہ منا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور سرجیکل سٹرائیک کی دھمکی دے رہی ہے۔ جنرل راوت بپن تو جنگ کی تیاری کئے بیٹھے ہیں۔ ایسی دھمکی کے بعد ان کی فوجیں بارڈر پر آ جانی چاہئیں تھیں مگر وہ بدستور چھائونیوں میں دبکی بیٹھی ہیں۔ فرضی سرجیکل سٹرائیک کی طرح بھارتی فوج فرضی جنگ اور اس میں اپنی کامیابی کے دعوے بھی کر سکتی ہے۔ بھارت کے پاس روایتی اور غیر روایتی اسلحہ کے ذخائر اور پاکستان کے مقابلے میں چھ گنا بڑی فوج ہے۔ پاکستان کے پاس الحمد للہ بھارت کے آخری کونے تک مارنے والے ایٹمی میزائل موجود ہیں۔ ایٹم بم تو بہت بڑی چیز ہے اس کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ مہاراج! یہ ایٹمی میزائل راکٹ اور بم ہم نے شو کیس میں سجانے کیلئے نہیں رکھے ہوئے۔بھارت ڈر ے اس وقت سے جب پاکستان نے واقعتاً ایسی سرجیکل سٹرائیک کی جو بھارت نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی۔