امریکہ طالبان مذاکرات میں مسئلہ کا حل ہے

ایک امریکی اخبار کے مطابق قطر میں امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان افغان عمل پر مذاکرات ہوئے ہیں۔ امریکی وفد نے طالبان کو امن مذاکرات کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی۔ دوسری طرف افغانستان میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں‘ فضائی حملوں اور ایک خاتون کی انتخابی ریلی میں خودکش دھماکے میں 29 افراد ہلاک اور 32 زخمی ہو گئے۔
پاکستان شروع سے ہی امریکہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے کہ ٹون ٹاور کا انتقام لینے کی کوششیں عالمی اور خطے کے امن کیلئے خطرناک ثابت ہونگی مگر کسی نے اس معاملے کو ہوشمندی سے لینے کی کوشش نہ کی۔ طاقت کے وحشیانہ استعمال سے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ القاعدہ بحیثیت تنظیم منتشر تنظیم ہو گئی۔ طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ سات آٹھ سال کی روپوشی کے بعد اسامہ بن لادن حسرت ناک انجام سے دوچار ہوئے‘ لیکن اس کے باوجود افغان جنگ ختم نہ ہوئی بلکہ افغانستان میں امن حسرت بن گیا۔ دہشت گردوں کا امریکہ پر بس نہ چلا تو پاکستان کو نشانے پر دھر لیا۔ اس سارے قضیے میں امریکہ‘ افغانستان اور پاکستان کا بے پناہ جانی نقصان ہوا۔ علاوہ ازیں مالی نقصان اتنا زیادہ تھا کہ اس کے کئی ٹون ٹاور بن سکتے تھے۔ اب امریکہ افغانستان میںبُری طرح پھنس چکا ہے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ وہ کمبل کو چھوڑنا چاہتا ہے‘ لیکن کمبل اسے نہیں چھوڑ رہا۔ پاکستان نے جب بھی امریکہ کو طالبان سے مذاکرات کا مشورہ دیا‘ امریکہ نے اس سے غلط مطلب اخذ کیا۔ حالانکہ امن، امریکہ طالبان براہ راست مذاکرات سے ہی آئے گا۔ افغانستان پر چڑھائی مہلک فیصلہ تھا اور اب اس غلطی پر اڑے رہنا مہلک ترین ہے۔ افغان جنگ نے پاکستان کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا۔ ترقی کا عمل سست ہو گیا۔ پاکستان کی طرح خونریزی اور دہشت گردی سے تنگ آئے افغان عوام بھی امن چاہتے ہیں۔ طالبان سے براہ راست مذاکرات درست فیصلہ ہے۔ امریکہ کو ثابت قدمی سے اس عمل کو جاری رکھنا چاہئے۔ اس کیلئے بھارت کا افغانستان میں کردار ختم کرنا ضروری ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کا جاری رہنا بھارت کے مفاد میں ہے کیونکہ اس طرح اس کا سودا خوب بک رہا ہے۔