گزشتہ روز چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بنچ نے لاہور رجسٹری میں وکلاء کی جانب سے سب انسپکٹر پر تشدد کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، اُنہوںنے انسداد دہشت گردی کی دفعات معطل کرنے اور نامزد وکلاء کی گرفتاریوں سے متعلق حکم امتناعی مسترد کردیا۔ اس موقع پر موجود بعض وکلاء کی جانب سے نعرے بازی پر چیف جسٹس نے کہا کہ نعرے لگانے والے آئندہ میری عدالت میں مت آئیں۔ ’’میں استعفیٰ دے دوں گا لیکن انصاف کروں گا، ہنگامہ کر کے مجھے دبایا نہیں جا سکتا۔‘‘
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے منصب سنبھالنے کے بعد جس انداز میں فیصلے کئے ہیں، اُس سے خلیفۃ الرسول حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پہلے خطبے کی یاد تازہ ہو گئی، اُنہوںؓ نے فرمایا تھا، تمہارا کمزور اُس وقت تک میرے نزدیک طاقتور ہے جب تک کہ میں اُس کا حق نہ دلا دوں اور تمہارا طاقتور میرے نزدیک اُس وقت کمزور ہے ، جب تک کہ میں، اُس سے کمزور کا حق نہ لے لوں، یعنی ایک مسلمان حکمران اور جج کا اولین فرض ہے کہ وہ دبائو یا طاقت کو خاطر میں لائے بغیر انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ محترم چیف جسٹس نے اپنے عمل سے عدل کے بارے میں اس منفرد اسلامی اصول پر من و عن عمل کرکے دکھا دیا ہے۔ اُنہوں نے ایسے لوگوں کو دہلیز پر انصاف دیا جو تھانے، عدالت تو دورکی بات گھر سے باہر نکلنے سے بھی خوف کھاتے تھے پھر ایسے لوگوں کی بھی گرفت کی، جن کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایسی جرأت صرف وہی کر سکتا ہے، جس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، اس واقعہ پر ہر قانون پسند کو افسوس ہوا، کہ وکلاء نے ایک مقدمے میں بعض دفعات لگانے پر تھانیدار پر تشدد کیا پھر جب چیف جسٹس آف پاکستان اس واقعے کی سماعت کر رہے تھے تو عدالت میں وکلاء کی طرف سے شورو شغب ہوا اور نعرے بازی کی گئی، وکلاء ، عام پڑھے لکھے لوگوں کے برعکس وہ طبقہ ہیں جو قانون کی بالادستی کا علمبردار بھی ہے۔ اگر یہ لوگ قانون ہاتھ میں لیں گے تو انارکی سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024