پیر‘ 5؍ صفر المظفر1440 ھ ‘ 15اکتوبر 2018ء
ڈی جی نیب آبدیدہ۔ اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے پر تحریری معافی قبول
جب عدالت کے سامنے پیشی ہو تو اچھے اچھے قانون کے سامنے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔ ان نیب حکام کی کیا مجال جو اپنی فرعونیت بھول کر منہ بسورتے روتی ہوئی صورت بنا کر معافی نہ طلب کرتے۔ مگر کیا استاد کو یوں سرعام رسوا کرنے کی دانستہ کوشش کو بھول چوک قرار دیا جاتا ہے؟ اسکا جواب ہم قانون اور انصاف کے ساتھ ساتھ عوام پر چھوڑتے ہیں۔ کیونکہ اگر قانون یا انصاف ایسے لوگوں کی معافی قبول بھی کرتا ہے تو بھی عوام انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ سیانوں نے پہلے ہی کہا تھا عذر گناہ بدتر زر گناہ۔ اب عدالت کے سامنے یہ بھیڑ نما بھیڑیا کہتے ہیں کہ انہوں نے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر ہتھکڑیاں لگائی تھیں۔ یہ کیسا اندھیر ہے۔ کیا ڈی جی نیب بھول رہے ہیں ایک ماہ قبل جب کراچی ائر پورٹ پر انور مجید کے سامنے انکے بیٹے کو نیب کے افسر نے ہتھکڑی لگانے کی کوشش کی تھی تو کس طرح انہوں نے دھکا دے کر ہاتھ جھٹک کر نیب افسر کو پرے دھکیلا تھا اور ہتھکڑی لگنے نہیں دی تھی۔ طاقتور بااثر افراد کے سامنے نیب بھیگی بلی بنتا ہے اور ایک عام معزز استاد کے سامنے شیر۔ ایسی کونسی سکیورٹی خدشات تھے۔ کیا مجاہد کامران اور باقی رجسٹرار فرار ہونے کی کوشش کر سکتے تھے۔ یا ان کے مسلح ساتھی حملہ کر کے انہیں بھگا لے جا سکتے تھے۔ کیا یہ لوگ قتل، ڈکیتی یا دہشت گردی کیس میں ملوث خطرناک مجرم تھے۔ یہ سب مفروضے سن کر لوگ ہنس رہے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب اساتذہ کا وقار اور احترام تک داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ کیا اب قوم اور مجاہد کامران کے سامنے معافی اس کا مداوا ہے……
٭٭٭٭٭٭
5 برسوں میں پاکستان یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا: عمران خان
خدا کرے وزیراعظم کی یہ خواہش ضرور پوری ہو ورنہ آج تک ملک میں جتنی بھی صفائی مہم ہو یا شجرکاری مہم چلائی گئیں ہیں ان کا نتیجہ صفر ہی سامنے آیا ہے۔ لوگ اور حکمران ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کر اور پودے لگا کر تصویریں بناتے ہیں بعد میں کہاں گیا جھاڑو اور کہاں گیا پودا شاید ہی کسی کو یاد رہتا ہے کہ وہ اور کچھ نہیں تو کم از کم صفائی کی ماہانہ رپورٹ ہی طلب کر لیتا۔ اب یہ بات گرچہ سیاسی بیان ہے یا تسلی ہے کہ 5 برس میں پاکستان یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا۔ تاہم اگر حکومت صرف شہروں کو ہی صاف ستھرا بنا دے یہ ہی ایک بڑا کارنامہ ہو گا۔ شہروں میں گندگی، آلودگی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تجاوزات نے شہروں کی شکل بگاڑ دی ہے۔ انہیں صاف ستھرا بنانا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ ابھی تو صرف کراچی کو صاف کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لاہور کو بھی جس کی حالت قدرے بہتر تھی اب بھی تجاوزات اور آلودگی سے پاک کرنا ضروری ہے۔ گوجرانوالہ، پشاور، کوئٹہ اور حیدر آباد کی باری نجانے کب آئے گی تب تک وہاں کے لوگ صبر کریں۔ ہاں اگر پورے ملک میں جھاڑو پھرنا شروع ہو گیا تو پھر شاید ہر طرف نکھار آجائے گا۔ اب کوئی جھاڑو پھرنے کا سیاسی مطلب نہ لے۔ اس کے بعد تو شاید کوئی صفائی کرنے والا بھی نظر نہیں آئے گا۔
وزارت میری بجائے کسی آئی ٹی ماہر کو دی جانی چاہئے تھی: خالد مقبول صدیقی
یہ کیا کہہ رہے ہو بھائی… عجب کہہ رہے ہو بھائی ۔ ہمارے ہاں کی راج نیتی یہی ہے کہ جو جس کام کا اہل ہو اسے وہ کام دیا ہی نہیں جاتا۔ نجانے کیوں۔ شاید یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ عوام کو مقبول نہ ہو جائے۔ لوگ اسے مسیحا نہ سمجھنے لگ جائیں۔ اسی لئے ہر جگہ جہاں دیکھیں ’’کہیں کی رباعی کہیں کی غزل‘‘ نظر آتی ہے۔ اب ہمارے وزیر برائے ٹیلی کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی خالد مقبول صدیقی نے نجانے کیوں وہ سچ کہہ دیا ہے جو کہتے ہوئے بڑے بڑے سیاستدان سہم جاتے ہیں کہیں مزاج حاکماں پر بار نہ پڑے۔ انکا یہ کہنا بھی بڑے حوصلے کی بات ہے کہ یہ وزارت کسی اہل شخص کو دی جائے جس کو اس کا تجربہ بھی ہو۔ کیا ایسا ممکن ہے۔ نہیں شاید ایسا کبھی نہ ہو۔ کیونکہ ہمارے ہاں شہنشاہی نظام کی خوبوابھی تک باقی ہے۔ ہمارا طرز حکمرانی وہی ظل الہٰی والا ہی ہے۔ جہاں ہر وقت جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کی حاجت رہتی ہے۔ ہر شخص اپنی دستار سنبھالے سر کو بچانے کی فکر میں رہتا ہے اور صلے میں اپنا منہ موتیوں سے بھرا چاہتا ہے۔ لوگوں کو توقعات بہت ہیں مگر ’’بڑھے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘‘ والی حالت بھی برقرار ہے۔ ایسے میں ہر مقام پر اس کے اہل کہاں ملے گا۔ سو جو جہاں ہے وہاں خوش رہے اور جان کی امان پائے…
٭٭٭٭٭٭
عرب مسلم اینکر اور یہودی اداکار کی شادی سے اسرائیل میں ہلچل مچ گئی
یہ ہل چل تو اسرائیلی سیاست کا ایک حصہ ہے وہاں کچھ بھی نہ ہو رہا ہو تو مسلمانوں کے نام سے ہی ہلچل مچا دی جاتی ہے۔ بس فرق یہ ہے وہاں اس ساری ھل چل کا نشانہ فلسطینیوں کو بنایا جاتا ہے۔ اب کے بار تو ایک نئی ہلچل نے اسرائیلی سیاست میں اتھل پتھل مچا دی ہے۔ سیاستدان الگ رو رہے ہیں، سر پیٹ رہے ہیں کیونکہ یہودی مرد ہو یا عورت مذہب کے مطابق کسی غیر مذہب میں شادی نہیں کر سکتے۔ یہودیت وہ مذہب ہے جو نسلی ہے۔ اس میں کوئی غیر داخل نہیں ہو سکتا۔ اب ایک مسلم عرب میڈیا اینکر سے ایک یہودی اداکار نے شادی کر لی تو پوری یہودیت خطرہ میں پڑ گئی ہے۔ جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ زیادہ شور تو مسلم سوسائٹی کی طرف سے ہونا چاہئے کہ مسلم خاتون کس طرح ایک غیر مسلم سے شادی کر رہی ہے۔ مگر ایسے اکا دکا واقعات سے اسلام کو نہ پہلے خطرہ تھا نہ اب ہو سکتا ہے۔ اس لئے مسلمانوں نے کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یہودیوں کی طرف سے واویلا البتہ جاری ہے مگر شادی کی تقریب میں دولہا اور دلہن کے رشتہ دار دوست احباب سب خوش تھے۔ ظاہر ہے ان میں یہودی بھی تھے عیسائی بھی اور مسلم بھی اس لئے اسرائیلی سیاستدان اپنی آگ میں خود ہی جل کر بھسم ہو رہے ہوں گے۔ یورپ میں بھی تو بے شمار عیسائی اور یہودی باہمی رشتے کرتے ہیں۔ شادیاں کرتے ہیں۔ وہاں یہودیوں کو کیوں سانپ سونگھ جاتا ہے۔ وہاں کوئی ہلچل کیوں نہیں مچتی۔ مطلب صاف ظاہر ہے یہودیوںکو شادی سے نہیں مسلمانوں سے مسئلہ ہے۔
٭٭٭٭٭