دولت کے کھیل میں کاروبار ، مال کمانے کا جائز راستہ ہے کاروبار اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہے جس کی ہزار اقسام ہیں تجارت سے رزق حلال کمانے والے تاجروں کا درجہ شہدا کے برابر رکھا گیا ہے ۔پاکستان سے کرپشن ختم کرنی ہے۔جڑ سے اکھاڑنی ہے تو چینی عزم و جرات درکار ہے۔ نیم دروں، نیم بروں سے پہلے کچھ ہوا، نہ اب ہوگا۔قوم کی آس ،امید، اور نیک خواہشات کا احترام کیا جائے جو وزیراعظم عمران خان نے از حد بڑھا دی ہیں اب مخالفین باہم متحد ہوکر بے رحمی سے عوامی تمناؤں کا گلا گھونٹناچاہتے ہیں؟ چین دنیا کا واحد ایسا ملک ہے جہاں رشوت ستانی یا جدید اصطلاح میں ’وائٹ کالر کرائم‘ کی سزا موت ہے۔جہاں گذشتہ سالوں میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے ممتاز رہنما، وزیر تجارت اورپولٹ بیورو کے رکن بو زلائی کو عمر قید اور ساری جائیداد کی ضبطی کی سزا سنائی دی گئی ’’بو‘‘ ترقی کی علامت اور جدید چین کے ماتھے کا جھومر سمجھا جاتا تھا ایک سینئر جرنیل (Guo Boxiong)بھی عمر قید بھگت رہے ہیں انہوں کمال کیا کہ سارا مال حرام پاناما نہیں اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپایا ہوا تھا۔تازہ مثال یہ ہے کہ مشرقی چین میں دو وائس مئیرز کو رشوت لینے پر موت کے گھاٹ اتاردیاگیا جبکہ انٹرپول کے حال ہی میں مقرر ہونے والے پہلے چینی سربراہ اور چین کے پبلک سکیورٹی کے نائب وزیر مینگ ہونگ وائی رشوت ستانی کے الزام میں قابل گردن زدنی ٹھہرے ہیں۔ چینی قیادت کا اپنے عوام، اشرافیہ اور دنیا بھر کے لئے سادہ لیکن دوٹوک پیغام ہے کہ کرپشن جو بھی کرے گا، جان سے جائے گا۔ پھر عظمت ان پر ٹو ٹ کر کیوں نہ برسے؟ مینگ ہونگ وائی معمولی شخص نہیں۔ لیکن ان کی گرفتاری پر نہ تو میڈیا چیخا، ،نہ احتجاج ہوا، نہ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع ہوئی، نہ ٹاک شوز میں دست وگریبان ہونے کا کوئی منظر نظرآیا، نہ حکومت کی طرف سے بھانت بھانت کے وزراء کے ست رنگی بیانات کی شفق پھیلی۔ قانون کا تقاضاتھا، پورا ہوگیا۔ مینگ اگر قصور وار پایا جائے گا تو قانون کا تقاضا پورا ہوگا۔ہمارے یہاں کا ’باواآدم‘ ہی نرالا ہے۔ بڑوں کی گرفتاری پر پانی پت کی لڑائی کا سماں پیدا کرکے قوم کو گمراہ اور مایوس کرنے کی کوششیں عروج پر پہنچ جاتی ہیں۔ اداروں کو ڈرانے، خوفزدہ کرنے اور انتقامی کاروائیوں کی دھمکیاں بہ صورت بیانات جاری ہورہی ہیں۔ منظرتراشا جارہا ہے گویا قیامت آگئی ہو۔ اے کاش ! چین والا رویہ یہاں بھی مجرموں کے ساتھ روا ہو تو سسکتے، تڑپتے عوام کے کلیجوں میں ٹھنڈ پڑجائے۔ یہاں جمہوریت اور پارلیمان خطرے میں پڑ جاتی ہے لبرٹی والے پٹرول پمپ کے حوالے سے سماعت کے دوران جب سپریم کورٹ میں جلسہ عام بپا کرنے کی کوشش کی گئی تو چیف جسٹس کو ) (shut up) کال دینا پڑی تھی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ ‘‘میرا بھائی’’ کہتا ہے لبرٹی والا پمپ تو ان کے نام نہیں ہے۔
25ستمبر کو فرانس کے شہر لیون سے چین روانہ ہونے والے مینگ ہونگ وائی لاپتہ ہوگئے تھے اب چین نے تصدیق کردی ہے کہ انٹرپول کے لاپتہ ہونے والے سربراہ مینگ ہونگ وائی اس کی حراست میں ہیں۔ بیجنگ نے اس معاملے کی مزید تفصیل میں یہ بتایا ہے کہ مینگ ہونگ وائی سے قانون کی خلاف ورزی پر تحقیقات کر رہا ہے اور انسداد رشوت ستانی کا ادارہ ان سے پوچھ پڑتال میں مصروف ہے۔مینگ ہونگ وائی کوئی عام آدمی نہیں۔ لیکن چین کی حکومت نے ثابت کیا کہ عہدہ، مرتبہ یا شان وشوکت کوئی معنی نہیں رکھتا۔ جب بات قانون کی ہوگی تو پھر خلاف ورزی پر سزا بھگتنا ہوگی۔ اس پر کوئی حیل حجت یا بہانہ بازی قبول نہیں۔ ایک سیدھا راستہ، ایک سادہ اصول اور غیرمبہم پالیسی، اپنے اور پرائے سب جان گئے کہ چین میں حکمرانی کس کی ہے۔ کسی شخص کی نہیں بلکہ قانون کی۔ انٹرپول نے یہ تصدیق بھی کردی ہے کہ اتوار کو مینگ ہونگ وائی کا استعفی بھی انہیں موصول ہوچکا ہے اور وہ انٹرپول کے سربراہ کے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں۔ چین کا ’نیشنل سپرویژن کمیشن‘ بدعنوانی کے مقدمات کی چھان بین کرتا ہے۔ اس ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کردہ بیان میں بتایا ہے کہ مینگ ہونگ وائی سے تفتیش جاری ہے۔ فرانس سے لاپتہ ہونے پر وہاں کی حکومت نے گمشدگی کی تحقیقات کا آغاز کیا تھا تاہم یہ کہاگیا تھا کہ ان کے پاس مزید معلومات موجود نہیں۔البتہ ہانگ کانگ سے شائع ہونے والے سائوتھ چائنا مارننگ پوسٹ اخبار نے 64 سالہ مینگ کے بارے میں یہ خبر دی تھی کہ وہ چین میں حراست میں ہیں اور ان سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔انٹرپول نے اپنے چینی سربراہ کی گمشدگی پر جب تلاش کا عمل شروع کیا اور کھلبلی مچ گئی تواسی تلاش بسیار میں انہیں پتہ چلا کہ موصوف کہاں ہیں۔ جس پر چینی حکومت سے رابطہ کرکے کہاگیا کہ مینگ کے بارے میں واضح کیاجائے۔ایک بیان میں انٹرپول نے اپنے سربراہ کی گمشدگی پر تشویش کااظہارکرتے ہوئے کہاتھا کہ وہ اس معاملے پر باخبر ہے۔ یہ معاملہ فرانس اور چین کے متعلقہ حکام کے بیچ ہے۔بعدازاں سماجی رابطے ٹوئٹر پر انٹرنیشل پولیس ، انٹرپول نے جاری کردہ بیان میں اطلاع دی کہ مینگ ہونگ وائی کا استعفی موصول ہوگیا ہے۔فی الحال انٹرپول نے اس ہنگامی صورتحال میں اپنے قاعدے قانون کو دیکھتے ہوئے جنوبی کوریا کے سینیئر نائب صدر کم جونگ ینگ کو قائم مقام صدر منتخب کرلیا ہے۔ انٹرپول کا یہ بھی کہنا ہے کہ مینگ ہونگ وائی کے بقیہ دو سالوں کی مدت کے نئے صدر کا انتخاب جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں کیا جائے گا۔ یہ وضاحت بھی کی گئی کہ انٹرپول کے روزمرہ امور ادارے کے جنرل سیکریٹری دیکھتے ہیں۔انٹرپول دنیا کے ممالک کے درمیان رابطہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کسی شخص کی گرفتاری کے لیے 'ریڈ نوٹس' جاری کر سکتی ہے لیکن کسی ملک میں جا کر متعلقہ شخص کی گرفتاری کا اسے اختیار حاصل نہیں۔مینگ سے ہونے والی تفتیش میں شریک ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ ’وہ فرانس میں غائب نہیں ہوئے‘۔ فرانس میں تحقیقات کا آغاز مینگ کی اہلیہ کی جانب سے پولیس کو اپنے خاوند کی گمشدگی کے بارے میں اطلاع پر ہوا تھا۔ پولیس کے مطابق خاتون کا اپنے شوہر سے 29 ستمبر کے بعد سے کوئی رابطہ نہیں۔ بعد ازاں فرانس کی وزارتِ داخلہ نے موقف دیا تھا کہ آخری رابطے کی اصل تاریخ 25 ستمبر ہے اور چینی حکام سے اس معاملے پر بات چیت جاری ہے۔ فرانس انٹرپول کے صدر کی گمشدگی پر حیران ہے اور اسے ان کی اہلیہ کو دی جانے والی دھمکیوں پر تشویش ہے۔دوسری جانب غیرملکی بھونپو نے اس موقع کو چین کے خلاف ابلاغی محاذ گرم کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ ’نشان زدہ‘ ممالک کے بارے میں ابلاغی اور سوچ کے محاذ پر کئی ادارے ایسے کسی بھی موقعے کی تلاش میں رہتے ہیں جہاں وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں اور ’نشان زدہ‘ ممالک کو سیاہ رو کرسکیں۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیں ’’بی بی سی کی ایشیا ایڈیٹر سیلیا ہیٹن کا کہنا ہے کہ ’مینگ ہونگ وائی کی گمشدگی اسی نوعیت کی ہے جس طرح چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سینئیر ارکان غائب ہوتے رہے ہیں۔ کوئی رکن اچانک غائب ہو جاتا ہے اور کسی کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کہاں ہے۔ بعد میں پارٹی ایک مختصر بیان جاری کرتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ وہ اہلکار ’زیرِ تفتیش‘ ہے۔ اس کے بعد اسے ’نظم و ضبط کی خلاف ورزی‘ کی پاداش میں پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے اور آخر میں جیل کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ شی جن پنگ کے 2012 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک دسیوں لاکھ چینی حکام کو کسی نہ کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے‘‘۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اصولوں کی مالا جپنے والے مغربی دانشوروں کی تان ایک ہی لے پر ٹوٹتی ہے۔ وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ ممالک کے اندر قانون واصول کی پاسداری کو خاص رنگ دے کر پیش کرنے میں کسی تاخیر کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
ایک بیان میں انٹرپول نے کہا ہے کہ وہ اپنے سربراہ کی گمشدگی سے باخبر ہے۔ 'یہ معاملہ فرانس اور چین کے متعلقہ حکام کے درمیان ہے۔'مینگ کا فراہمی انصاف کے شعبے میں 40 سال کا تجربہ ہے۔انہیں 10نومبر 2016ئ کو انٹرپول کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ چین کی وزارت امن عامہ کے نائب وزیر مینگ ہونگ اس عہدے پر تعینات ہونے والے پہلے چینی شہری ہیں۔ ان کا اس عہدے پر تقرر چار سال کی مدت کے لئے ہوا تھا۔ ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس فیصلے سے چین کو ملک چھوڑ کر جانے والے سیاسی مخالفین کا پیچھا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔انٹرپول کا سربراہ بننے کے بعد مینگ ہونگ کا کہنا تھا کہ پولیس کا نظام بہتر بنانے کے لئے وہ تمام ممکنہ اقدامات کرنے پر تیار ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ہمیں عوامی تحفظ کے عالمی سطح پر انتہائی سنجیدہ نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ مینگ کا عہدہ انٹرپول کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے صدر کا تھا جو اس ادارے کو رہنمائی فراہم کرتی ہے۔مینگ کی تعیناتی پر ایمیسٹی انٹرنیشنل کے نکولس بیکوئلن نے تنقید کرتے ہوئے کہاتھا کہ ’’یہ (تعیناتی) غیرمعمولی طور پر پریشان کن ہے کیونکہ چین بیرون ملک سے باغیوں اور پناہ گزینوں کی گرفتاری کے لیے انٹرپول کا استعمال کرتا رہا ہے۔ان کے خیال میں اس شخص کی تعیناتی ادارے کے عالمی انسانی حقوق کے جذبے کے تحت کام کرنے کے مینڈینٹ کے ساتھ متصادم ہے۔چین نے انٹرپول کے ذریعے مطلوب افراد کی واپسی کا معاہدہ کررکھا ہے اور 2014 میں انٹرپول نے بیرون ملک فرار ہوجانے والے 100 کے قریب مشتبہ بدعنوان افراد کے لیے ریڈ نوٹس جاری کیے تھے۔
مشرقی چین میں دو وائس مئیرز کو رشوت لینے پر موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ شی می یونگ اور جیانگ جیِن جییف ہونگ جو اور سوجو سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو سپریم پیپلزکورٹ کے حکم پر پھانسی دی گئی۔شی پر الزام تھا کہ اس نے 22ملین ڈالر پراپرٹی ڈویلپمنٹ کے ٹھیکوں میں رشوت لی۔ دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کا بھی اس پر الزام تھا۔جیانگ پر رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ میں کک بیکس لینے کا الزام تھا۔دونوں کی اپیلیں بھی مسترد کردی گئیں۔ان کے ساتھ جو مڈلیول کا عملہ تھا جن کے ساتھ مل کر یہ کاروائی ہورہی تھی ان کو پکڑا گیا اور عبرت کی مثال بنایا گیا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024