مقبوضہ کشمیر میں پنجائتی اور بلدیاتی انتخابات کا ڈھونگ بری طرح ناکام ہو چلا ہے۔ علاوہ ازیں دو روز قبل بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیر الدین شاہ نے 2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات کی بابت اہم انکشافات کئے۔ یاد رہے کہ بھارتی صوبے گجرات میں 2002 میں مودی کی وزارت اعلیٰ کے دوران مسلمانوں کا بدترین قتل عام کیا گیا تھا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہی ایک ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو زندہ رہنے کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا جبکہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس وقت مودی نے بھارتی فوج سے مدد لینے کا ڈھونگ رچایاتھا مگر انھیں پابند کر دیا گیا تھا کہ وہ جنونی ہندوئوں کے مذموم ارادوں کی راہ میں حائل نہ ہوں۔ جنرل شاہ نے یہ انکشافات اپنی کتاب ’’دی سرکاری مسلمان‘ ‘میں کئے ہیں۔ جنرل شاہ نے انکشاف کیا کہ پولیس ہندو حملہ آوروں کا ساتھ دے رہی تھی جو جگہ جگہ اقلیتوں کے علاقوں کو گھیر کر آگ و خون کا بازار گرم کر رہے تھے ۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضمیر الدین شاہ جو طویل عرصے تک علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ، بالی وڈ کے مشہور زمانہ ایکٹر ’’نصیر الدین شاہ‘‘ کے سگے بھائی ہیں ۔
دوسری جانب بھارت میں پانچ ریاستوں کے انتخابات کا اعلان کیا جا چکا ہے، جن میں راجستھان، مدھیہ پردیش، میزورام، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ شامل ہیں۔ یاد رہے کہ مدھیہ پردیش، راجستھان ،تلنگانہ اور میزورام میں ایک جبکہ چھتیس گڑھ میں دو مرحلوں میں ووٹنگ ہو گی۔ چھتیس گڑھ میں پہلے مرحلے میں 12 نومبر جبکہ دوسرے مرحلے میں 20 نومبر، مدھیہ پردیش اور میزورام میں 28 نومبر اور راجستھان اور تلنگانہ میں 7 دسمبر کو انتخابات کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ انتخابی نتائج 11 دسمبر کو سامنے آئیں گے ۔ مدھیہ پردیش ( 230 نشستیں )، راجستھان (200 سیٹیں ) اور چھتیس گڑھ (90 نشستیں) میں RSS کا سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی بر سراقتدار ہے جہاں اس کا کانگرس سے سخت مقابلہ متوقع ہے۔ تلنگانہ ( 119 نشستیں) میں وزیراعلیٰ ’’چندر شیکھر رائو ‘‘ کی ’’تیلگو راشٹریے سمتی‘‘ (TRS ) کی حکومت ہے جبکہ میزورام (40 سیٹیں ) کا اقتدار کانگرس کے پاس ہے۔ راجستھان میں اب تلک یہ روایت رہی ہے کہ ایک انتخابات میں کانگرس کو جیت ملتی ہے تو دوسرے میں بی جے پی کو۔ بھارت میں ان انتخابات کے متعلق تجسس پایا جاتا ہے کیونکہ ماہرین کے مطابق یہ چنائو ایک طرح سے بھارت کے عام انتخابات 2019 کے ’’سیمی فائنل‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ مبصرین کے مطابق تین ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگرس کو کسی حد تک بی جے پی پر سبقت حاصل ہے۔ یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ تلنگانہ اسمبلی کی مدت مئی 2019 میں ختم ہونا تھی مگر وزیراعلیٰ چندر شیکھر رائو نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے اسمبلی تحلیل کر دی ۔ تلنگانہ اور آندھرا پردیش کا مشترکہ دارالحکومت حیدرآباد دکن ہے۔
ٔمبصرین کے مطابق راجستھان اسمبلی انتخابات میں کانگرس بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ریاست میں قریب دو دہائیوں سے جاری برسر اقتدار پارٹی کی اسمبلی انتخابات میں شکست کی روایت برقرار رہ سکتی ہے۔انتخابات کی بابت تاحال جو مختلف سروے کئے گئے ہیں، ان سب کا تجزیہ کریں تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ 200 رکنی راجستھان کی اسمبلی میں کانگرس کے 140 سیٹیں جیتنے کی توقع ہے جبکہ بی جے پی کے کھاتے میں 125 سے 135 سیٹیں جائیں گی۔ وزیراعلیٰ کے عہدے کے لئے 36 فیصد رائے دہندگان کی پسند کے ساتھ کانگرس کی ریاستی یونٹ کے صدر سچن پائلٹ سب سے آگے ہیں۔ سچن پائلٹ مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کے داماد اور عمر عبداللہ کے بہنوئی ہیں۔ جن کی بہن ’’سارہ پائلٹ‘‘ سچن پائلٹ کی شریک حیات ہیں۔ اس سے فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کی ’’مسلم دوستی‘‘ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ بہر حال بات ہو رہی تھی انتخابات کی۔ بی جے پی کی وسندھرا راھے سندھیا 27 فیصد ووٹروں کی پسند ہیں جبکہ کانگرس لیڈر اشوک گہلوت کو 24 فیصد رائے دہندگان وزیراعلیٰ کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ راجستھان میں وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کی ممکنہ شکست میں ’’ان کمبینسی فیکٹر‘‘ بنیادی کردار کر سکتا ہے ۔ دوسری طرف کانگرس 15 سالوں کے وقفہ کے بعد مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار میں واپسی کر سکتی ہے بہرحال چونکہ کانگرس کو معمولی سی سبقت حاصل ہے اس لئے کوئی چھوٹی پیش رفت بھی نتائج پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق بادی النظر میں مدھیہ پردیش کی 230 رکنی اسمبلی میں کانگرس کو 120 جب کہ 90 رکنی چھتیس گڑھ اسمبلی میں اس کے کھاتے میں 45 کے لگ بھگ سیٹیں آنے کا امکان ہے۔ وہیں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی کو ایک اندازے کے مطابق بالترتیب 105 اور 40 سیٹیں مل سکتی ہیں ۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ بی جے پی نے 2013 میں مدھیہ پردیش میں 165 نشستیں ، راجستھان میں 142 اور چھتیس گڑھ میں 49 نشستیں حاصل کی تھیں جبکہ کانگرس کو ان ریاستوں میں بالترتیب 58 ، 21 اور 39 نشستیں ملی تھیں۔ اس پس منظر میں یہ بات خصوصی توجہ کی حامل ہے کہ مودی اپنی ’’ کرشماتی شخصیت‘‘ کی بنا پر ان نتائج کو ’’الٹ پلٹ‘‘ کر دینے کی اہلیت کے حامل ہیں کیونکہ چنائو سے عین پہلے کوئی ’’چھوٹا یا بڑا‘‘ واقعہ اس سارے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ البتہ یہ بات کسی حد تک یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات مارچ اپریل میں ہونے والے بھارت کے عام چنائو پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024