یوں تو کہنے کو یہ بات خوبصورت معلوم ہوتی ہے کہ خاموشی باعث آسودگی ہے لیکن اگر خاموشی حکمت کی ہو تو آسودگی و سکون کا باعث ہے۔ خاموش رہنے کے لاتعداد فوائد ہیں مصلحت و حکمت کی خاموشی یقیناً مفید اور عافیت کن ہے۔ ہم میں سے اکثر خاموش طبع اور کم گو لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے۔ کم گوئی اور خاموشی اگر ابلاغ کا کام مکمل کریں اور بولتی خاموشی کو سمجھنے والے بھی ہوں تو خاموشی اور بھلی معلوم ہوتی ہے۔ کیا ہم نے کبھی یہ بھی سوچا کہ کم گوئی اور خاموشی کی بھی قسمیں ہوتی ہیں جیسا کہ خاموشی جرم و عیب کو پوشیدہ رکھنے کیلئے بھی اپنائی جاتی ہے‘ خاموشی میں کوئی تکلیف دہ راز و بھید بھی چھپا ہوسکتا ہے‘ خاموشی جھوٹ کا نعم البدل اور میسنا پن بھی ہوسکتی ہے ‘ خاموشی افسری اور تکبر کی بھی ہوسکتی ہے اور ایک طرز کی خاموشی جو کہ آج کل بہت عام ہوچکی ہے وہ یہ کہ کسی سے حسد میں آکر اس کی گفتگو یا بہتر پرفارمنس پر خاموش رہ کر رسپانس نہ دے کر خوار کرنے و نفی کرنے کی مذموم کوشش کرنا۔ اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو ہمیں اپنے ماحول میں ایسے اشرافیہ بھی نظر آئیں گے جو اندر ہی اندر ظلم و جبر اور جرم و مکر کررہے ہوں گے لیکن خاموشی کا ہتھیار استعمال کرکے صاف نکلنے یا بچنے کا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہوں گے تاکہ نہ کوئی بات چھڑے اور نہ وہ پکڑے جائیں۔ ایک تو ہم اپنی خاموشی کا ذکر کرتے ہیں مگر معاملہ اس سے بھی آگے ہے کہ اکثر اس فکر میں بھی ہوتے ہیں کہ کوئی (دوسرا) بول نہ پڑے۔ کچھ لوگوں کو دوسروں کو خاموش رکھنے کا ٹینشن بھی رہتا ہے۔ یہ ٹینشن دراصل اصلیت کی خوفناکی آشکار ہونے کا خوف ہوتا ہے اس لئے دوسروں کی زبان بندی بھی آج کا وطیرہ خاص ہے‘ بولنے اور کلام کرنے کے حوالے سے شیخ سعدی فرماتے ہیں ’’جب تک کوئی بولتا نہیں اس کا عیب و ہنر سامنے نہیں آتا اور جب تک کوئی اظہار نہیں کرتا اس کی ذات کی حقیقت کو کوئی پا نہیں سکتا‘‘ گویا کہ ابلاغ بلکہ کچھ مزید آگے چلیں تو ہم کہتے ہیں کہ بحث و تمحیص ہماری معاشرتی و سماجی ضرورت ہے۔ بعض کم گو یا خاموش طبع لوگوں کی ذاتی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں جیسا کہ فن اظہار سے ناواقفیت‘ علم و اعتماد سے تہی دامن ہونے کا احساس کمتری اور ہم میں سے اکثر لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلئے اچھا بولنے والوں کو دبائو میں لانے کیلئے انکے بولنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو کہ مکر و فریب میں آتا ہے۔ لمبی بات نہ کرنا اور مختصر بات کو خوبی سمجھا جاتا ہے تو یاد رکھیے صبر کیساتھ کسی کو پوری بات کرنے کا موقع دینا اور اطمینان سے دوسرے کو سننا بھی ایک خوبی ہے۔ ہم بولنے والوں کو ہی ہمیشہ موضوع بحث بناتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں سننے والوں کا بحران ہے۔ یوں کہیے کوئی کسی کو سننے کیلئے تیار نہیں ہر کوئی اپنی ہی سنانا چاہتا ہے‘ مساویانہ سننے اور سنانے سے افہام و تفہیم پیدا ہوتا ہے اور معاملات کی سچائی تک رسائی ممکن ہوتی ہے باہمی شفقت و مہربانی کے جذبات پیدا ہوسکتے ہیں اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر اور تکلیف کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ بولنے والے بہرحال لیڈر ہوتے ہیں اور سننے والے کنگ میکر ہوسکتے ہیں۔ معاشرتی مسائل کے تجزیئے سے ابلاغ کے مؤثر ہونے کا جائزہ لیں تو حالات خراب اس وقت اس جگہ نظر آرہے ہیں جہاں سماعت و گویائی کے عمل کو بھی بدعملی و ذاتی پسندیدگی و ناپسندیدگی کے بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ صرف اپنی ہی بات کہی جائے اور سنا بھی وہی جائے جسے ہم سب سننا پسند کرتے ہیں اس عمل میں خود غرضی اور آمرانہ (Authrotative) مزاج کارفرما ہوتا ہے ایسے مزاج کے مالک لوگ حقیقت میں حقائق بھی توڑ موڑ دیتے ہیں اور ایک سسٹم کے تحت معاملات Marivpulate کردیتے ہیں جن کے پاس علم ہوتا ہے اظہار کا فن ہوتا ہے اور وہ سچے ہوتے ہیں وہ بولتے رہتے ہیں۔بات حق اور سچ پر مبنی کی جائے اور ایسی گفتگو کی جائے کہ جس سے دوسروں کی دل آٰزاری‘ تحقیر اور بہتان تراشی نہ ہو‘ منافرت و منافقت سے پاک ہو یعنی اچھی بات ہو اور اچھی بات وہی ہے جس میں جھوٹ کا فتنہ اور فساد نہ ہو۔ ہماری زبانوں سے فی زمانہ ’’دانا پانا‘‘ ’’آگ لگانا‘‘ ’’بھڑکانا‘‘ اور ’’کذب و بہتان باندھنا‘‘ عام ہوچکا ہے۔ صاف‘ سیدھی اور سچی بات زندگی میں آسانیاں پیدا کرتی ہے۔‘ منافقت و چار سو پیدا کرنے والوں نے ہی دوسروں کیلئے ہی نہیں اپنے لئے بھی خودساختہ ذہنی اذیتیں پیدا کررکھی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ مختصر بولیں یا طوالت اختیار کریں بس حق کہیں اور سچ ہی سننے کی خواہش کریں۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024