اورنج لائن ٹرین کیس‘ حکومتی گورننس پر سپریم کورٹ کے سخت ریمارکس اور فاضل چیف جسٹس کی میڈیا پر برہمی

ریاستی ادارے اپنی خرابیوں سے صرفِ نظر کرکے دوسروں پر ملبہ ڈالیں گے تو سسٹم میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا
پاکستان کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس انور ظہیرجمالی اور مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل سپریم کورٹ کے ڈویژن بینچ نے اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کو روکنے سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل کی سماعت کے بعد عدالت کی معاونت کیلئے فریقین سے تین تین ٹیکنیکل ماہرین کے نام طلب کرلئے جبکہ اس کیس میں فریق بننے کیلئے پی ٹی آئی نے اپنی درخواست گزشتہ روز واپس لے لی۔ گزشتہ روز دوران سماعت فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کے نام پر تاریخی ورثے کو مٹایا جارہا ہے۔ سوال قومی تاریخی ورثے کے تحفظ کا ہے‘ تاریخی ورثہ ہماری شناخت ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں باور کرایا کہ عوام سے جمہوریت کے نام پر مذاق ہورہا ہے‘ گڈگورننس کے نام پر بیڈگورننس جاری ہے۔ عوام نے اگر ایسے ہی لوگوں کو ووٹ دیئے تو پھر ایسے ہی ہوگا۔ دوران سماعت بینچ کے فاضل رکن مسٹر جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ منصوبے کا ٹریک پاکستان بھارت بارڈر لائن نہیں کہ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت کا مقصد آثار قدیمہ کا تحفظ ہے اور عدالت نے آئین و قانون کے تحت فیصلہ دینا ہے‘ نہ حبِ علی میں نہ بغضِ معاویہ میں۔ فاضل عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ عوام کو سلوپوائزن نہ دیا جائے‘ ہماری تسلی اس میں ہے کہ ٹرین نہ آج گرے نہ کل‘ اور نہ سو سال میں۔ ایسا نہ ہو کہ غیرمعیاری میٹریل استعمال ہو اور ٹریک ٹنلز مسافروں کی آخری آرام گاہ ثابت ہوں۔ دوران سماعت سول سوسائٹی نیٹ ورک کی جانب سے محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے بتایا کہ پنجاب حکومت بغیر کسی ٹینڈر کے پراجیکٹ شروع کر دیتی ہے اور پھر کہتی ہے کہ چونکہ پراجیکٹ شروع ہو گیا ہے اس لئے اسے بننے دیا جائے‘ یہ روایت اب ختم ہونی چاہیے۔
حکومتی گورننس اور ادارہ جاتی بے ضابطگیوں پر چیک رکھنے اور انہیں قانون و آئین اور قواعد و ضوابط کا پابند کرنے کا یقیناً عدلیہ ہی مجاز فورم ہے۔ اگر اصلاح احوال کیلئے کسی قانونی شق میں ردوبدل مقصود ہو یا آئین و قانون کی کسی شق کی تشریح کی ضرورت ہو تو اس کیلئے آئین نے سپریم کورٹ کو بااختیار بنایا ہے۔ اسی طرح مفادعامہ اور ملکی و قومی مفادات سے متعلق کسی ایشو پر ازخود کارروائی عمل میں لانے کیلئے ہائیکورٹوں کو آئین کی دفعہ 199 اور سپریم کورٹ کو دفعہ 184 کے تحت بااختیار بنایا گیا ہے۔ اس تناظر میں عدلیہ نے حکومتوں اور قومی سرکاری اداروں کی من مانیوں کے آگے بند باندھ کر ملک اور معاشرے میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ جوڈیشل ایکٹوازم کی متذکرہ آئینی اختیارات کی بنیاد پر ہی گنجائش نکالی جاتی ہے جس کا مقصد بہرصورت اداروں اور ان سے متعلق افراد کی من مانیوں کو روکنا‘ سسٹم کو ٹریک پر رکھنا اور میرٹ و انصاف کا بول بالا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں اعلیٰ عدلیہ کی رولنگز اور فیصلے کسی حکومت اور قومی اداروں کیلئے گائیڈ لائن کی حیثیت رکھتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر حکمران اپنی گورننس بہتر اور رٹ مضبوط بنا سکتے ہیں اور ادارہ جاتی کرپشن اور من مانیوں پر قابو پاسکتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی حکمران کو کسی عدالتی فیصلے پر چیں بجبیں ہونے اور عدلیہ کو اپنی اپوزیشن سمجھنے کے بجائے متعلقہ فیصلے کو اسکی روح کیمطابق عملی جامہ پہنانا چاہیے۔ اگر آئین کے تابع حکومتیں اور حکمران عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے کے عذر تلاش کرنے کے بجائے ان پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائیں تو اس سے حکمرانوں کی ہی نیک نامی ہوگی اور اسی تناظر میں سسٹم مضبوط ہوگا تو کسی کو ماورائے آئین اقدام کے تحت سسٹم کی بساط لپیٹنے کا سوچنے کی بھی جرأت نہیں ہوگی۔ ہمیں عدلیہ کی فعالیت کو اسی پیرائے میں جانچنا چاہیے کہ اسکے نتیجے میں حکومتوں اور انکے معاون اداروں کے ذریعہ عوام کے گوناںگوں مسائل حل کرنے میں کتنی مدد ملی ہے یا مل سکتی ہے۔
ہماری عدلیہ میں بدقسمتی سے فوجی آمریتوں کے علاوہ کئی سول جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بھی جوڈیشل ایکٹوازم کا تصور مفقود رہا ہے اور عدلیہ نظریۂ ضرورت کے تحت جرنیلی آمروں کے ماورائے آئین اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کرتی رہی ہے تاہم میاں نوازشریف کے دوسرے دور حکومت میں چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجادعلی شاہ نے عدلیہ کے مشاہدے میں آنیوالی حکومتی بے ضابطگیوں کو روکنے کیلئے جوڈیشل ایکٹوازم کو اپنایا جس کا خمیازہ انہیں چیف جسٹس کے منصب سے بزور ہٹائے جانے کی صورت میں بھگتنا پڑا جس کیلئے انہیں اپنے ادارے کے اندر سے ہی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انکے بعد جرنیلی آمر مشرف کے دور میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس افتخار محمد چودھری نے جوڈیشل ایکٹوازم کا راستہ اختیار کیا اور مشرف کے ہاتھوں معطل ہونے کے بعد وہ پہلے سول سوسائٹی کے دبائو پر سپریم کورٹ فل کورٹ کے فیصلہ کے تحت اور دوسری بار اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نوازشریف کے لانگ مارچ والے دبائو کے تحت اپنے منصب پر بحال ہوئے مگر یہ سوال آج بھی اپنی جگہ پر قائم ہے کہ اس جوڈیشل ایکٹوازم کے نتیجہ میں حکمرانوں کی من مانیاں روکنے‘ ادارہ جاتی بے ضابطگیوں اور کرپشنوں کے آگے بند باندھنے اور حکمرانوں کے پیدا کردہ عوام کے روٹی روزگار‘ غربت‘ مہنگائی کے مسائل حل کرنے میں کوئی مدد ملی یا نہیں۔ اگر آج بھی حکمرانوں کی من مانیاں‘ ادارہ جاتی بے ضابطگیاں اور گھمبیر ہوتے عوام کے گوناںگوں مسائل برقرار ہیں تو راندۂ درگاہ بنائے گئے عوام کو عدلیہ کی فعالیت سے بھی بھلا کیا سروکار ہو سکتا ہے۔ عدالتی فورموں پر ازخود اختیارات والے مقدمات میں عدالتی فیصلے سے پہلے گرجتے‘ دھاڑتے اور کسی حکمران یا حکومتی ادارے کے پیچھے لٹھ لے کر چڑھ دوڑنے کا تاثر دیتے عدالتی ریمارکس کے بعد قانون و آئین کی عملداری کے باوصف ایسا عدالتی فیصلہ صادر کیا جاتا ہے جو عوام کی توقعات سے مطابقت رکھتا نظر نہیں آتا تو اس سے عوام میں مایوسی کی فضا مزید مکدر ہوسکتی ہے۔ اسی بنیاد پر انصاف کے بول بالا کے تناظر میں اس اصول کو فروغ دینے کی تلقین کی جاتی ہے کہ انصاف کے کسی کیس میں عدالت نہیں‘ عدالت کے فیصلے بولتے ہیں۔
مسٹر جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں موجودہ عدالت عظمیٰ کے حوالے سے جوڈیشل ایکٹوازم میں عدلیہ کے فیصلوں سے زیادہ عدالتیں بولتی نظر آتی ہیں جس سے یقیناً حکمرانوں اور حکومتی اداروں کیلئے پریشان کن صورتحال بھی پیدا ہوتی ہے جبکہ حکومتوں اور اداروں کو جھنجوڑنے والے عدالتی ریمارکس کے باوجود اصلاح احوال کی کوئی صورت پیدا ہوتی نظر نہیں آتی اور خود عدلیہ کے ادارے سے انصاف کی عملداری کے معاملہ میں عوام مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں تو اصلاحاتی عدالتی ریمارکس کے بے اثر ثابت ہونے پر عوام کا اعتماد عدلیہ کے ادارے سے بھی اٹھنے لگتا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے سے متعلق کیس کے معاملہ میں بھی عوام عدالتی ریمارکس اور عدالتی احکام پر عملدرآمد کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے انصاف کی عملداری پر مطمئن ہونے سے زیادہ مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں اور بالخصوص اس تناظر میں کہ آج بعض دوسرے ذرائع سے بھی اور حکومت مخالف سیاسی فورمز پر بھی موجودہ حکمرانوں پر ساری خرابیوں کا ملبہ ڈالتے ہوئے ماورائے آئین اقدام والوں کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا موقع فراہم کرنے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ بالخصوص منصف اعلیٰ کے یہ ریمارکس بھی بادی النظر میں جمہوری نظام کے ناکارہ ہونے کا تاثر مضبوط بنانے میں ہی معاون بن سکتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے اور عوام سے مذاق ہو رہا ہے۔ اس تناظر میںایک کے بعد دوسرے ریاستی ادارے کا منتخب جمہوری حکومت کی گورننس کو رگیدنا بادی النظر میں سول حکمرانی سے عوام کو بدگمان کرنے کی کسی طے شدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہی نظر آتا ہے۔ اگر کل کو اس کیس میں عدالتی ریمارکس کے برعکس فیصلہ صادر ہوا تو انصاف کی عملداری پر عوام کا پہلے ہی کمزور پڑنے والا اعتماد مزید کمزور ہو سکتا ہے کیونکہ عوام انصاف کی عملداری کا اس پیرائے سے بھی جائزہ لیتے ہیں کہ عدالت نے ایس ایس پی تشدد کیس میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے کافی عرصہ سے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں‘ متعلقہ انتظامی مشینری کو ان دونوں حضرات کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم بھی دیا جاتا ہے اسکے باوجود انکی آزادانہ نقل و حرکت میں بھی انکی گرفتاری کی نوبت نہیں آتی اور اسی طرح سابق صدر جنرل مشرف بھی عدالتی احکام کے باوجود دندناتے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور عدالتی عملداری بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے جبکہ عدلیہ میں فوری انصاف کا یہ تصور عوام کے سامنے آرہا ہے کہ قتل کے مقدمہ میں بے گناہ ثابت ہونیوالا ایک ملزم 19 سال تک جیل میں جرم بے گناہی کی سزا بھگتتا ہے اور جس وقت اسے اس کیس میںبے گناہ قرار دیا جاتا ہے تو وہ بے گناہ شخص اپنی زندگی کی قید سے ہی آزاد ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر آج عوام عدلیہ میں بھی کرپشن کلچر سے عاجز آئے نظر آتے ہیں تو دوسرے اداروں میں اصلاح احوال کے متقاضی عدالتی ریمارکس عوام اور اداروں میں کیسے اثرپذیر ہوسکتے ہیں۔ گزشتہ روز اس کیس کی سماعت کے دوران فاضل چیف جسٹس نے متذکرہ عدالتی ریمارکس کی اشاعت پر میڈیا کے ساتھ برافروختگی کا اظہار بھی کیا اور تلقین کی کہ میڈیا کو سنسنی پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے۔ فاضل چیف جسٹس نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ بعض اخبارات میں عدالتی ریمارکس غلط طریقے سے شائع کئے گئے ہیں۔ اگر کسی کیس میں اوپن کورٹ میں ایسے ریمارکس دیئے جائیں جن کی اخبارات میں شہ سرخیاں بن سکتی ہوں تو اس پر میڈیا کو کیسے مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اصلاح احوال کیلئے بہرصورت ہر قومی‘ آئینی ادارے اور عوام نے اپنی اپنی سطح پر ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ اگر اپنی خرابیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے دوسروں کو معتوب ٹھہرایا اور گردن زدنی قرار دیا جائیگا تو اس سے سسٹم میں اصلاح کے بجائے مزید بگاڑہی پیدا ہوگا۔