پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا
سلطنت خداداد پاکستان آج جن اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ دشمنان پاکستان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جوازل سے وطن عزیز کے وجودکے درپے ہیں تاکہ یہ خطہ ارضی اپنے روز افزوں ترقی کرتے راستے سے متزلزل ہو جائے اور دست نگر بن کر یونہی ہاتھ پھیلائے رکھے اور ہم اپنی من مانی شرائط پر اس کے کشکول میں چند ٹکے ڈال کر اپنے ناجائز معاشی و نظریاتی مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔ ان عالمی استعماری قوتوں کو اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے چند ضمیر فروش میر جعفر و میر صادق جیسے غداران ملت ہر دور میں بہم میسر آتے ہیں۔ ہمارے ملک کا یہ المیہ رہا ہے کہ جب بھی نوازشریف مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں اور ملک تھوڑا بہت ترقی کی شاہراہ پر ابھی دوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو کچھ نادیدہ قوتیں اور اس کے گماشتے اس ترقی کو سبوتاژ کرنے کے لئے میدان کارزار میں کود پڑتے ہیں اور مختلف سیاسی و معاشی حربے استعمال کرتے ہوئے حکومت وقت کا بوریا بستر گول کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً وطن عزیز پھر سے کئی سال پیچھے چلا جاتا ہے۔ جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے تو اسے مشکلات سے دوچار کر دیا گیا اور ترقی و خوشحالی کے روڈ میپ کو واپس لپیٹ دینے کی جو کوششیں کی گئیں وہ عوام پاکستان کے سامنے ہے۔ ایک جمہوری حکومت کی بساط لپیٹنے کی جو فلم چلائی گئی وہ ہماری اسلامی جمہوری و اخلاقی روایات کے سراسر خلاف ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں شاہراہ دستور پر پاکستان کے آئین کا جس بھونڈے انداز میں مذاق اڑایا گیا اس سے صیہونی عزائم کھل کر عوام کے سامنے آ گے جن کا مقصد صرف اور صرف پاکستان اور چین کے مابین ہونے والے ”سی پیک گوادر“ جیسے زبردست معاشی منصوبے کو روکنا تھا مگر عوام نے اﷲ کی مدد سے ان عالمی استعماری ایجنٹوں کو مسترد کر دی اور بھاری مینڈیٹ کی حامل موجودہ برسراقتدارحکومت کو پانچ سال پورے کرنے کا بھرپور موقع دیا۔ چین کے صدر کو پاکستان کا دورہ کرنے سے روکنے والی اس سیاسی ڈکٹیٹر جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ نے چار مہینے تک مرد و زن کے مخلوط اجتماع نے ہماری ملکی و نظریاتی اقدار کو اپنی غیر اخلاقی و تہذیب سے عاری گفتگو سے بہت بری طرح مجروح کیا جس سے اس جماعت کو ووٹ دینے والوں کے سر ندامت سے جھک گئے اور اپنے کئے ہوئے گناہوں کا کفارہ ہونیوالے ضمنی انتخابات میں ووٹ نہ دے کر ادا کیا۔ سیاحت کو عبادت کا درجہ سے گرا کر ملکی شخصیات پر جو کیچڑ اچھالا گیا اور جو بازاری گندی زبان استعمال کی جا رہی ہے وہ کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ مخالفین کے گھروں کا گھیرا¶ کرنے پر تل گئے مگر اپنے ہی سیاسی حریفوں سے جدائی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان عوامی تحریک اور دیگر جماعتوں نے اسے غیر اخلاقی حرکت قرار دیتے ہوئے کھل کرمخالفت کی مگر عمران خان نے عوامی اجتماع میں جس گھٹیا انداز میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری جو ان کے ”سیاسی کزن“ بھی تھے ان کو منانے کی بات پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ان سے کوئی رشتہ تو نہیں مانگا کہ وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ مگر عوام کو کیا خبر کہ صیہونی قوتوں کا یہ نمائندہ جو عوامی اجتماعات میں کھلے عام یہودی تنظیم ”فری میسن“ کا نشان بناتے ہوئے ان سے وابستگی کا اظہار کرتا ہے ان کے ساتھ ڈرامہ رچا رہا ے۔ کھیل کو سیاست سے تشبیہ دیتا ہے ایک خیراتی ہسپتال کے بل بوتے پر اپنے آپ کو پاکستان کا مالک سمجھ رہا ہے حالانکہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اس جماعت کی کارکردگی اہل پاکستان کے سامنے ہے۔
مگر اب عوام ان سیاسی شعبدہ بازوں سے پوری طرح باخبر ہیں کہ سی پیک گوادر کو روکنے کے لئے ”بھارت اسرائیل ایران افغانستان“ کے اتحاد نے کھل کر پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر مہم چلا رکھی ہے تاکہ ایک خوشحال پاکستان کبھی بھی معرضِ وجود میں نہ آ سکے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ خدارا پاکستان کی بقا کی خاطر سیاسی وابستگیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے موجودہ موٹرویز و گوادر سی پیک اور توانائی کے جاری منصوبوں کی تکمیل کے لئے ان ملت فروش فسادی قوتوں کے خلاف ڈٹ جائیں تاکہ پاکستان کے شہدا کے خون کی لاج رکھی جا سکے اور یہ وطن ایک گریٹر پاکستان کے روپ میں ابھر سکے۔ آمین اور ان لوٹوں کو پتہ چل سکے کہ ”لوٹوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا۔