جلسے دوسری جماعتوں کے بھی ہوتے ہیں۔ پیپلز پاٹی اور ن لیگ بھی بڑے بڑے اجتماعات کر چکی ہیں اور کر رہی ہیں لیکن کہیں ایسی بد نظمی اور بھگڈر دیکھنے میں نہیں آتی جو عمران خان کے جلسوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ سانحہ ملتان سے قبل مینار پاکستان لاہور کے جلسے میں بھی عمران خان کو کسی نے پیچھے سے دھکا دیا وہ لڑکھڑائے لیکن ساتھیوں نے سنبھال لیا۔ڈیڑھ سال پہلے لاہور میں غالب مارکیٹ کے جلسے میں وہ سٹیج پر لفٹرسے چڑھتے ہوئے ڈانو ڈول ہوئے اور نیچے آ گرے ،کمر میں شدید چوٹ کے باعث کئی مہینے زیر علاج رہے۔ تحریک انصاف کے منتظمین کو اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ انکے جلسوں کے بارے میں ہی کسی سانحہ، شورشرابے، ہنگامے یا بھگڈر کا اندیشہ کیوں لگا رہتا ہے ؟ کہیں ایسا تو نہیںکہ انہی منتظمین میں کوئی دوچارشرارتی عناصر بھی موجود ہوں۔ ملتان کا جلسہ جہاںاپنی حاضری اور جوش و خروش سے یاد رکھا جائے گاوہاں بد نظمی اور افراتفری کے حوالے سے بھی اسے بھلایا نہیں جا سکے گا جس نے 7افراد کی جانیں لے لیں اور درجنوں کو زخمی کر دیا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اس کا ذمہ دار مقامی انتظامیہ کو ٹھہرایا ہے اور ڈی سی او کے خلاف کاروائی اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ رانا ثناء اللہ نے عمران خان ، شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرانے کا اعلان کیا ہے کہ ان کے نزدیک جلسے کے منتظمین اس سانحہ کے ذمہ دار تھے گویا قیمتی جانوں کے ضیاع پر بھی اس سیاست کا آغاز کر دیا گیاہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں۔ جلسوں کی کوریج کرنیوالے مستند اخبار نویسوں کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے ہر جلسے میں سٹیج کا انتظام ناقص ہوتا ہے کہ اس پر بیٹھنے کی خواہش کرنے والے مسلسل حملہ آور رہتے ہیں ۔روکنے والے کبھی کامیاب ہوتے تو کبھی بے بس نظر آتے ۔ ملتان کے جلسے میں شدید گرمی او ر حبس کے باوجود پینے کے پانی کا انتظام تھا نہ کسی فرسٹ ایڈ کا ۔جلسہ کا انتظام کرنے والوں پر لازم ہونا چاہیے تھا کہ وہ سائے کیلئے شامیانے نصب کرتے ہوا کیلئے پنکھے بھی فراہم کرتے اور منتظمین اور رضا کار چاروں طرف پھیل کر سارے انتظامات پر نظر رکھتے جلسہ گاہ کے کتنے گیٹ کھلے ہیں۔ سٹیج تک پہنچانے والی سیڑھی کس نے ہٹائی وغیرہ۔
میں خود دوبڑی سیاسی جماعتوں کا انتہائی متحرک کارکن رہاہوں ۔ ان جماعتوں کے جلسوں کے انتظامات اپنے ساتھیوںکی مدد سے اسطرح کرتا رہا ہوں کہ کبھی قائدین اور سامعین کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جتنا بڑا جلسہ ہوگا انتظامیہ پر اتنی ہی بھاری ذمہ داری عائد ہوگی اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ ضلعی انتظامیہ پر بدنظمی اور بھگڈر کی مکمل ذمہ داری ڈالتے ہوئے اپنے فرائض سے پہلوتہی کی کوشش کی جائے ۔ ہم لوگ موسم کے لحاظ سے جلسوں کا انعقاد کرتے رہے ۔ سردی ، گرمی ، برسات ،بارش ہر موسم کو ذہن میں رکھتے ہوئے سٹیج پر شامیانوں کا اہتمام کرتے زمین پر بیٹھنے کیلئے دریاں بچھاتے ۔ جلسہ گاہ کے چاروں طرف شامیانے لگائے جاتے جو لوگ پنڈال سے باہر رہ جاتے ان کیلئے الگ لاؤڈسپیکروں کا اہتمام کرکے سڑکوں کے اطراف پراپنے رضاکار متعین کرتے اور اس طرح جلسہ شروع ہونے سے اختتام تک چاروں طرف کڑی نظر رکھتے ۔مجال ہے کہیں کوئی بدنظمی ہوئی ہو ، کہیں بھگڈر مچی ہو ۔ ہم لوگ شرکا کے جانے تک پنڈال میں موجود رہتے اور جب مجمع چھٹ جاتا تو شامیانے اور دریاںاٹھائی جاتیں ۔ ہمارے جلسے بھی بہت بڑے ہوتے رہے ہیں مگر ان میں ناچ گانے کا عنصر شامل نہیں ہوتا تھا ۔یہ طرح تحریک انصاف نے ڈالی ہے جس کا دعویٰ ہے کہ تحریک میں اکثریت چونکہ نوجوانوں کی ہے اس لئے وہ ایسا چاہتے ہیں مگر نوجوانوں کو یہ تو بتانا چاہیے کہ سٹیج پر تلاوت ہو رہی ہے اور آپ رقص کر رہے ہیں ۔ ایک بہت بڑے ہجوم کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ اپنی مذہبی اور تہذیبی اقدار کوہی پس پشت ڈال دیا جائے ۔ سانحہ ملتان پر اخبارت نے ادارئیے بھی لکھے ہیں اور معروف تجزیہ کاروں نے بھی اپنے اپنے رجحان کے مطابق تبصرے کئے ہیں، سب اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر ضلعی انتظامیہ سے کہیں کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو یہ پی ٹی آئی کے جلسہ منتظمین کی ذمہ داری تھی کہ وہ اسکی نشاندہی کرتے،اس کاتدارک کرتے اورسٹیج پر چڑھ بیٹھنے کی بجائے ضلعی انتظامیہ سے رابطہ میں رہتے،مگر نہیں،پی ٹی آئی کے قائدین اور منتظمین نے پارٹی کارکنوںکو کا اپنا’’مال مقبوضہ‘‘قرار دے رکھا ہے اور ان کی سہولت کے بارے میں وہ کسی تجویزپر کان نہیں دھرتے۔بہرحال اب جبکہ پی ٹی آئی اور ضلعی انتظامیہ دونوں اپنے اپنے طور پر معاملے کی چھان بین کروارہی ہیں۔ اگر تحریک انصاف صرف اس شخص کو پکڑے جس نے یہ سیڑھی ہٹوائی تو پھر یہ بھی معلوم ہو جائیگاکہ جلسے کے اختتام پرExit کے دو گیٹ کس کے کہنے پر بند کیے گئے۔ میں اپنے تجربے کی روشنی میں کہہ سکتاہوں کہ ملتان کی ضلعی انتظامیہ زیادہ قصور وار نہیں ۔ ملزم یا ملزمان پی ٹی آئی کے اندر ہی موجود ہیں جن کا کھوج لگانا خود پارٹی کی ذمہ داری ہے ۔
آخر میں لطیفہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ( ن) کے ترجمان اور وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق نے اس حوالے سے فرمایا ہے کہ لوگ مر رہے تھے مگر عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریریں جاری رکھیں انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ بھگدڑ کے وقت دونوں قائدین ایئر پوررٹ روانہ ہو چکے تھے اور سٹیج خالی تھا ۔ وہ اگلے روز پریس کلب میں پریس کانفرنس کر رہے تھے انھوں نے لوڈ شیڈنگ اوراوور بلنگ کے حوالے سے صحافیوں کے سوالات کے جواب دینے کے بجائے تحریک انصاف کے ایک افسوسناک جلسے کا ذکر کر کے بات پلٹ دی۔ بہر حال مجھے تو ان کی معلومات پر داد ہی دینا ہے کہ واقعہ کے پانچویں دن بھی انھیں درست حقائق کا علم نہیں اور وہ بھاری مینڈیٹ رکھنے والی جماعت کے وفاقی وزیر ہیں،ماشا ء اللہ۔۔۔
کچھ دوستوں نے میری ای میل اور سیل فون پر دریافت کیا ہے کہ 12اکتوبر کو ہیوی مینڈیٹ رکھنے والی ن لیگ کو جنرل مشرف نے 15سال پہلے چلتا کیا تھا اور جمہوریت پر بقول ان کے شب خون مارا تھا۔ اس حوالے سے ن لیگ نے کوئی مذمتی تقریب بھی منعقد نہیں کی ۔کیوں؟ جن دوستوں نے پوچھا بڑے سیانے ہیں۔مجھ سے کہلوانا چاہتے ہیں کہ سابق صدر سے Yes نہ ہوئی ہوتی تو ن لیگ کے گرد گھیرا جس قدر تنگ ہو گیا تھااس میں اس کا سروائیول اسی میں تھا کہ وہ مشرف کے بارے میں ہتھ ہولا رکھیں ۔پاک فوج نے بھی فی الحال اس لئے بخش دیا ہے ۔ بہر حال لگتا ہے کہ ن لیگ کا کھیل ابھی کچھ عرصہ اور چلے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024