پروٹوکول اور وی آئی پی کلچر کے نام پر۔۔۔۔۔۔۔۔خون ناحق کی فراوانی
احسان شوکت
azee_ahsan@hotmail.com
حکمران و سیاستدان طبقہ کی جانب سے اقتدار،اختیار اور دولت کے نشہ میں چور ہو کر نشے میں چور بدمست ہاتھی کی مانند لوگوں کو پاؤں تلے روندنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں ۔ایسا ہی ایک دلخراش اور انتہائی افسوسناک واقعہ گزشتہ دونوں لاہور کے علاقہ ڈیفنس میں پیش آیا۔جب سابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی گاڑی سے موٹرسائیکل ٹکرانے پر ان کی سکیورٹی پر تعینات گارڈز نے فائرنگ کرکے 23سالہ نوجوان کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔ واقعہ کے مطابق ڈیفنس اے کے علاقہ وائے بلاک میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا بیٹاعبدالقادر گیلانی اپنے سکیورٹی گارڈز کے ہمراہ گاڑیوں پر گھر جا رہا تھا کہ اس دوران وہاں ایک موٹرسائیکل پرسواردوبھائی طاہر ملک اور وحید ملک موٹر سائیکل پر اپنے تایا کے گھر ڈیفنس زیڈبلاک میں قربانی کا گوشت دے کر آرہے تھے کہ ان کی موٹر سائیکل عبدالقادر گیلانی کی گاڑی سے ٹکرا گئی ۔جس پر عبدالقادر گیلانی کے سکیورٹی گارڈز نے فائرنگ کرکے طاہر ملک کو موقع پر ہی موت کے گھاٹ اتار دیا اور موقع سے فرار ہو گئے ۔جس کے بعد گاڑیاں181 ۔وائے بلاک میں واقعہ سابق وزیر اعظم کے گھر داخل ہوئیں اور انہوں نے سابق وزیر اعظم کے گھر’’پناہ‘‘لے لی۔مقتول کے ورثاء اور اہل علاقہ کی بڑی تعدادنے لاش سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے گھر کے باہر سڑک پر رکھ کرشدید احتجاجی مظاہرہ اور نعرے بازی کی ۔اس دوران لالک چوک پر دھرنا دئیے بیٹھے پاکستان تحریک انصاف کی بڑی تعداد بھی وہاں پہنچ گئی اور انہوں نے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی ۔شدید احتجاج پر ڈیفنس اے پولیس نے عبدالقادرگیلانی اوراس کے6 محافظوں کے خلاف مقتول طاہر ملک کے والد تنویراحمد جاوید کی مدعیت میں قتل اور انسداد دہشت گردی ایکٹ سمیت دیگرسنگین کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا اور عبدالقادر گیلانی کے گارڈ سانگھڑ کے رہائشی محمد خان کو گرفتار کرلیا ۔جس کے بعد وی وی آئی پی کلچر کی ایک اور داستان نے جنم لیا اور انویسٹی گیشن پولیس نے ڈیفنس میں نوجوان طاہر ملک کے قتل کیس میں ملوث سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کے حراست میں لئے گئے سکیورٹی گارڈ سے ’’ڈیل‘‘ کے تحت ایک ہی دن میں ’’طے شدہ‘‘ تفتیش مکمل کر لی جبکہ دوسری طرف کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ عبدالقادر گیلانی سمیت 6 ملزموں کوتاحال گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انویسٹی گیشن پولیس نے نوجوان طاہر ملک کے قتل کے مقدمہ میں ملوث ایک سکیورٹی گارڈ محمد خان کو گیلانی خاندان سے مذاکرات کر کے حراست میں لے لیا تھا۔ ذرائع کے مطابق فریقین میں معاملات طے پائے تھے کہ اس معاملے کو دبانے کیلئے سکیورٹی گارڈ کو پولیس کے حوالے کر دیا جائے تاکہ مظاہرین کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے اور ایک سیاسی جماعت جو کہ مقتول کے ورثا کے ساتھ کھڑی ہو کر پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے اسے بھی روکا جائے۔جس پر گیلانی خاندان نے اپنا سکیورٹی گارڈ محمد خان پولیس کے حوالے کیا تھا اور پولیس نے طے شدہ ڈیل کے تحت گرفتار سکیورٹی گارڈ محمد خان سے خصوصی شفقت برتی اور کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دن میں ہی اپنی تفتیش مکمل کر لی اور عبدالقادر گیلانی سمیت دیگر ملزموں کو گرفتار کرنا تو درکنار اس کی طرف شک سے دیکھنا تک بھی گوارہ نہ کیا۔ پولیس نے دہشت گردی اور قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ کے واحد گرفتار ملزم محمد خان کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا۔ ملزم محمد خان کے بیان کے مطابق اس نے طاہر ملک کو عبدالقادر جیلانی پر حملہ آور سمجھ کر فائرنگ کی مگر نشانہ غلط ہو گیا اور گولی اس کی آنکھ میں لگ گئی، اس کا ہرگز مقصد اسے ہلاک کرنا نہیں تھا۔عدالت نے ملزم محمد خان کو شناخت پریڈ کے لئے 14روز کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ہے۔ علاوہ ازیں پولیس حکام نے پہلے اس مقدمہ کی تفتیش کے لیئے ڈی آئی جی انوسٹی گیشن شہزاد سلطان کی سربراہی میں قائم کرنے کا اعلان کیا مگر بعد میں ایس پی کینٹ انوسٹی گیشن مصطفی حمید کو کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ کمیٹی کے سربراہ مصطفی حمید نے کہا ہے کہ مکمل میرٹ پر تفتیش کی جائے گی ۔ مقتول ملک طاہر کے والد تنویر احمد جاوید کا کہنا ہے وہ محکمہ ہیلتھ سے ریٹائرڈ ملازم ہیں۔ وہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے باپ تھے مگر ظالموں نے اس کے ایک بیٹے کو مار ڈالا۔ ملک طاہر انتہائی فرمانبردار بیٹا تھا۔ اس نے بی کام کے بعد ایم کام میں داخلہ لینے کے علاوہ حال ہی میں نسبت روڈ پر ایک کیمرہ فرم میں ملازمت شروع کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ حکومتی روئیے سے مطمئن نہیں ہیں۔ خدارا ہمیں انصاف دلایا جائے۔ وہ صرف انصاف اور ملک سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اس واقعہ کے حوالے سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے بیانات میں کہاہے کہ میرے بیٹے کو لاحق سکیورٹیخدشات پر گارڈ ا س کے ساتھ ہوتے ہیں۔کانوائے میں شامل محافظوں کی ذمہ داری سکیورٹی یقینی بنانی ہوتی ہے۔ گزشتہ روز موٹر سائیکل سوار گاڑی کے سامنے آیا ۔جس پر محافظ نے نوجوان کے پائوں پر گولی چلائی ،جو ری بائونڈ ہوکر اسے لگی اور اس کی ہلاکت کا سبب بنی۔ انہوں نے کہا کہ انہیںاپنے بیٹے عبدالقادر کے خلاف قتل اور دہشت گردی کے مقدمے پر اعتراض نہیں مگر تحقیقات شفاف غیر جانبدارانہ اور شفاف ہونی چاہئے۔تحریک انصاف والوں نے مقتول ملک طاہر کی نعش پر سیاست کی، ہم قانون کے مطابق چلیں گے۔علاوہ ازیں مقتول ملک طاہر کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اس کی موت سر پر گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ گولی آنکھ کے قریب سے کھوپڑی میں داخل ہوئی اور دوسری جانب سے باہر نکل گئی۔ پولیس کے مطابق گارڈ نے کلاشنکوف سے فائرنگ کی جوکہ جدید خودکار ممنوعہ بور اسلحہ کے زمرے میں آتا ہے۔ تفتیش جاری ہے جلد اصل حقائق سامنے آ جائیں گے۔زرائع کے مطابق پولیس اپنی تفتیش میں اس واقعہ کو اتفاقی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے جبکہ علاوہ ازیں ذرائع کے مطابق گیلانی فیملی نے مقتول کے ورثاء سے صلح کیلئے ان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا ہے اور ان کے کچھ لوگ بھی بھجوائے جا رہے ہیں کہ وہ ورثا کو دیت لینے پر راضی کریں۔غرض متذکرہ صورتحال سے پتا چلتا ہے کہ بااثر ملزم عبدالقادر گیلانی کے خلاف مقدمہ صرف سرکاری فائلوں میں دب کر رہ جائے گا ۔کتنی افسوسناک بات ہے کہ ہمارے سیاستدان جو اقتدار کے لئے عوام کو گلے لگاتے ہیں ،بعد میں وہی صاحب اختیار ہو کر عوام کے گلے پڑ جاتے ہیں۔