اس شخصیت کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ……آس کا سب سے بڑا حربہ اور ہتھیار منطق ہے۔ اس کا مزاج ابن الوقتی کا دوسرا نام ہے‘ اس کی سرد مہری بحراوقیانوس سے بھی بڑی ہے۔ اس کی نفرت جلاد کی تلوار سے بھی زیادہ تیز ہے‘ اس کا مقصد دنیا کو بچانا ہے اور بچانے کا اس کا طریقہ ہے کہ پہلے دنیا کو بارود کی طرح بھک سے اڑا دیا جائے‘‘ …… اور یہ الفاظ برطانیہ کے وزیر جنگ ونسٹن چرچل کے تھے اور جس شخصیت کے بارے میں اس نے یہ الفاظ کہے تھے وہ شخصیت روس کے لینن کی تھی۔ آج امریکہ دنیا کو بچانے کا نعرہ لگا کر پہلے دنیا کو بارود کی طرح بھک سے اڑانے پر تلا ہوا ہے۔ امریکہ کا ماضی میں بھی یہ رویہ رہا کہ اپنے عوام کو بھی بے وقوف بناتا ہے ‘ انہیں بھی جنگ کے مقاصد میں جھونک کر امن کا نام استعمال کرتا ہے اور پھر برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کو بھی اتحادی بنا لیتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ پاکستان پر آپریشن کا دائرہ کار بڑھانا چاہ رہا ہے وہ سمجھتا ہے کہ طالبان کے ساتھ یہاں سے روابط اور نیٹ ورکنگ کے سلسلے موجود ہیں۔ امریکہ ایک مرتبہ پھر بے وقوفانہ حرکات میں ملوث ہونا چاہتا ہے۔ ایک تو امریکہ کو یہ بات سمجھ میںنہیں آ رہی کہ دہشت گردی کے جس نیٹ ورک کی وہ بات کرتا ہے اور اسے مشکل جنگ قرار دیتا ہے اس سے نمٹنا ہماری افواج کے لئے کچھ آسان کام نہیں ہے۔ ہمارے ملک کے اندر تک بیرونی ایجنسیوں کے علاوہ کئی طرح کے مسائل موجود ہیں تو پھر ایسے نازک مرحلوں کا مقابلہ بھی نہایت سوچ سمجھ کر ہی کیا جا سکتا ہے ۔ اندرون خانہ بھی کسی جنگی جنون یا حالات کی ابتداء نہیں کی جا سکتی۔ انہی حالات میں روس کے سفیر آندرے ایس ٹرنک نے کہا ہے کہ حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون ہوسکتا ہے اور پاکستان اور روس کو تعلقات کے نئے دور کا آغاز کرنا چاہئے۔ امریکہ کی محبت اور جنگ دونوں صورتحال میں یہی بات مناسب ہے کہ روس کے سفیر آندرے ایس ٹرنک کے جواب میں کہا جاتا کہ ہاں … حالات تبدیل ہو چکے ہیں اور اب روس کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ہو سکتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار کے ساتھ بھی اگر امریکہ بھارت کوہمارا دوست بنا کر تعلقات بڑھانے پر مجبور کرتا ہے تو پھر افغانستان اور روس کے ساتھ حالات بہتر کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔ جبکہ اب تو کرزئی بھی کبھی کبھی گریہ زاری پر اتر آتے ہیں۔ لہذا دکھائی دے رہا ہے کہ حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ روسی سفیر نے بھی افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ۔ ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک نے نیٹو فورسز کے ٹرکوں کو جانے کی اجازت دینے کے لئے ٹیکسز لگانے کی باتیں کر کے راستہ کھول تو دیا ہے مگر ان مسائل پر تشویش کا اظہار کرنا اور امریکہ کو آنکھیں دکھانا ضروری ہو چکا ہے۔ کیونکہ امریکہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کر چکا ہے اور اس لئے نیٹو فورسز کے ہیلی کاپٹر ہماری فضائی حدود کی پھر سے خلاف ورزیاں کر رہے ہیں ایسے میں نئے تعلقات اور نئے حالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ روسی سفیر کے علاوہ سپین کے سفیر اور جمہوریہ چیک کے سفیر پاول سی یانک نے پولیس کے شہداء کی قبروں پر پھول چڑھانے کی تقریب سے خطاب بھی کیا۔ جبکہ پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر ریان سی گرد نے بھی کہا ہے کہ امریکہ دوہری پالیسی چھوڑ دے۔ مگر امریکہ ان تمام باتوں کا تجزیہ کرنے پر تیار نظر نہیں آتا اس لئے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی بات کرتا ہے۔ روس کو بھی اب کافی نصیحت ہو چکی ہے اور پاکستان کو بھی نصیحت حاصل ہو جانا چاہئے۔ امریکہ کے سامنے اب لینن کا خراج چاہئے کہ جس کے بارے میں برطانیہ کے ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ اس کا خراج ابن الوقتی ہے… روس کو اور پاکستان کو اب ابن الوقت بن کر بحراوقیانوس سے زیادہ سرد مہری امریکہ کو دکھانا پڑے گی کیونکہ حالات تبدیل ہونے جا رہے ہیں!
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024