محمد عبداللہ گل........
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان وطن عزیز ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی عظیم ہستی ہیں کہ جن کے احسانات کا بدلہ ہماری آئندہ نسلیں بھی شاید کبھی نہ چکا پائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ صدی میںکئی ایسی شخصیات گزری ہیں کہ جنہوں نے تفسیر القران، حدیث، فقہ، طب، ایجادات اور دیگر کئی شعبوں میں بے مثال خدمات سر انجام دیں ۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جن حالات میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر نہ صرف وطن عزیر بلکہ عالم اسلام کا سر فخر سے بلند کیا اس کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محسن پاکستان کی ذات گرامی ایک ایسی ذات ہیں کہ جس پر ہمیں بجا طور پر فخر ہے۔ حکمران ان کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں لیکن اس اٹل حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ آج 17کروڑ پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ گزشتہ روز اہل وطن کے دل اس وقت نہایت افسردہ و غمزدہ ہوئے ہیں کہ جب قومی غیرت کو امریکی غلامی میں گروی رکھنے والے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کشمیری حریت پسندوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے ساتھ ہی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف یہ زبان درازی کی کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان بدکردار انسان ہیں‘‘ پرویز مشرف نے اس شخص کے خلاف زبان درازی کی ہے کہ جس کے متعلق وہ خود اپنے آمرانہ دور حکومت میں کہہ چکا ہے کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان میرے ہیرو ہیں‘‘۔ 1971ء میں ہونے والے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ 28؍مئی1999ء کو دنیا کے سامنے سر اونچا کرکے اور اپنے ازلی و ابدی دشمن بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بنایا تو کیا آج ہم ان کی محنتوں، ریاضتوں، قربانیوں اور احسانات کا بدلہ اس صورت میں چکائیں گے کہ انہیں مسلسل قید تنہائی کا شکار رکھا جائے اور مہینوں ان کے عزیر و اقارب کو بھی ان سے نہ ملنے دیا جائے اور اوپر سے طرہ یہ کہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف محسن پاکستان کے خلاف کھلے عام ہزرہ سرائی کر رہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وطن عزیز کے دفاع کے لئے وہ گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں کہ جس کے بعد وہ واقعی ہمارا گراں قدر اثاثہ ہیں اُن کی جس حد تک بھی قدر کی جائے وہ کم ہے زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یوں گھروں میں قید نہیں رکھتیں بلکہ بخدا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہر ممکن خدمت کے بعد بھی ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہنوز حق ادا نہیں ہوا۔ آخر میں محسن پاکستان کی حب الوطنی کی ایک اور دلیل پیش کرتا ہوں وہ یہ کہ جس دن پاکستان نے غوری میزائل کا تجربہ کرنا تھا، اسی دن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی والدہ محترمہ انتقال فرما گئی تھیں۔ اب یا تو ڈاکٹر صاحب میزائل تجربہ کر سکتے تھے یا وہ والدہ کا جنازہ پڑھ سکتے تھے لیکن محسن پاکستان نے اس دن بھی والدہ کے جنازے پر میزائل کے تجربہ کو ترجیح دی تھی تو قارئین یہ ہمیں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن کے بارے میں بدزبانی کرکے مشرف نے 17کروڑ اہل وطن کی غیرت کو مجروح کیا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ اس شتربے مہار کو فوری نکیل ڈالی جائے وگرنہ پاکستان کے حساس معاملات پر مشرف کا وجود زہرِ قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان وطن عزیز ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کی عظیم ہستی ہیں کہ جن کے احسانات کا بدلہ ہماری آئندہ نسلیں بھی شاید کبھی نہ چکا پائیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ صدی میںکئی ایسی شخصیات گزری ہیں کہ جنہوں نے تفسیر القران، حدیث، فقہ، طب، ایجادات اور دیگر کئی شعبوں میں بے مثال خدمات سر انجام دیں ۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جن حالات میں پاکستان کو ایٹمی قوت بنا کر نہ صرف وطن عزیر بلکہ عالم اسلام کا سر فخر سے بلند کیا اس کے بعد ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محسن پاکستان کی ذات گرامی ایک ایسی ذات ہیں کہ جس پر ہمیں بجا طور پر فخر ہے۔ حکمران ان کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں لیکن اس اٹل حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں کہ آج 17کروڑ پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ گزشتہ روز اہل وطن کے دل اس وقت نہایت افسردہ و غمزدہ ہوئے ہیں کہ جب قومی غیرت کو امریکی غلامی میں گروی رکھنے والے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کشمیری حریت پسندوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے ساتھ ہی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے خلاف یہ زبان درازی کی کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان بدکردار انسان ہیں‘‘ پرویز مشرف نے اس شخص کے خلاف زبان درازی کی ہے کہ جس کے متعلق وہ خود اپنے آمرانہ دور حکومت میں کہہ چکا ہے کہ ’’ڈاکٹر عبدالقدیر خان میرے ہیرو ہیں‘‘۔ 1971ء میں ہونے والے سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ 28؍مئی1999ء کو دنیا کے سامنے سر اونچا کرکے اور اپنے ازلی و ابدی دشمن بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل بنایا تو کیا آج ہم ان کی محنتوں، ریاضتوں، قربانیوں اور احسانات کا بدلہ اس صورت میں چکائیں گے کہ انہیں مسلسل قید تنہائی کا شکار رکھا جائے اور مہینوں ان کے عزیر و اقارب کو بھی ان سے نہ ملنے دیا جائے اور اوپر سے طرہ یہ کہ سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف محسن پاکستان کے خلاف کھلے عام ہزرہ سرائی کر رہا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے وطن عزیز کے دفاع کے لئے وہ گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں کہ جس کے بعد وہ واقعی ہمارا گراں قدر اثاثہ ہیں اُن کی جس حد تک بھی قدر کی جائے وہ کم ہے زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یوں گھروں میں قید نہیں رکھتیں بلکہ بخدا ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہر ممکن خدمت کے بعد بھی ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہنوز حق ادا نہیں ہوا۔ آخر میں محسن پاکستان کی حب الوطنی کی ایک اور دلیل پیش کرتا ہوں وہ یہ کہ جس دن پاکستان نے غوری میزائل کا تجربہ کرنا تھا، اسی دن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی والدہ محترمہ انتقال فرما گئی تھیں۔ اب یا تو ڈاکٹر صاحب میزائل تجربہ کر سکتے تھے یا وہ والدہ کا جنازہ پڑھ سکتے تھے لیکن محسن پاکستان نے اس دن بھی والدہ کے جنازے پر میزائل کے تجربہ کو ترجیح دی تھی تو قارئین یہ ہمیں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان جن کے بارے میں بدزبانی کرکے مشرف نے 17کروڑ اہل وطن کی غیرت کو مجروح کیا ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ اس شتربے مہار کو فوری نکیل ڈالی جائے وگرنہ پاکستان کے حساس معاملات پر مشرف کا وجود زہرِ قاتل ثابت ہو سکتا ہے۔