ڈاکٹر ایم اے صوفی....
13اکتوبر 2010ء نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور کارکنان پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام کے آر اعظم محقق، محب الوطن کی کتاب کی رونمائی ہوئی جس میں اعلیٰ سطح کے اسلام سے محبت کرنے والوں نے اپنے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا اور اسلام اور اسلام کی سوچ اس کی افادیت کے بارے میں نہایت عمدہ، تحقیقی انداز سے مصنف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
محترم مجید نظامی جنہوں نے اس کتاب کا پیش لفظ تحریر کیا، اپنے صدارتی خطبہ میں اپنی طالب علمی کے زمانہ کے تاریخی انکشافات کیے کہ مولانا ابو اعلیٰ مودودی صاحب سے ان کی ملاقات ہوتی رہی۔ لیکن پاکستان بنتے وقت حضرت مولانا نے 1946ء کے الیکشن میں اپنے متعلقین اور چاہنے والوں سے ووٹ ڈالنے کا مشورہ نہ دیا اور ان حضرات نے ووٹ1946ء کے الیکشن میں پاکستان یا بھارت کو ووٹ نہیں ڈالے۔ اگر خدانخواستہ ووٹ اینٹی پاکستان لوگوں کے زیادہ ہوتے تو پاکستان کیسے بنتا؟ اس طرح دیگر علماء دین کا بھی کچھ ذکر ہوا۔ جنہوں نے پاکستان کے بننے میں حصہ نہیں لیا، اکثر مجالس میں یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان سب نے ملکر بنایا۔ یہی اعتراف ہے کہ پاکستان آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد کی بدولت اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت کے عوض پاکستان حاصل ہوا اور جمہوری عمل سے حاصل ہوا۔ ہمارا کلیم یہی ہے کہ پاکستان عوام کی قربانیوں اور قائداعظم کی کاوش وجدوجہد سے حاصل ہوا۔ لہٰذا بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ ہیں۔ محترم مجید نظامی صاحب نے تحریک خاکساران کے بانی محترم علامہ عنایت اللہ مشرقی اور تحریک احرار کا ذکر بھی کیا کہ یہ لوگ بھی پاکستان کی مخالفت میں تھے۔
حقیقت یہ ہے۔ نواب نصر اللہ جوہر مجلس احرار کے سیکرٹری تھے۔ انہوں نے بیان دیا تھا کہ آل انڈیا نیشنل کانگریس پارٹی جو فیصلہ کرے گی۔ ہم اس کے پابند ہوں گے۔ مفتی محمود صاحب مرحوم کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ پاکستان بنانے کی گناہ میں شامل نہیں تھے۔ سرحد میں سرخ پوش لیڈر نیشنلسٹ کانگریس کے لیڈر پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی،مفتی کفایت اللہ یہ لوگ بڑے عالم، بڑے مقرر اور بڑے اونچے قد کے لوگ تھے۔ مگر پاکستان بننے میں حصے دار نہ ہوسکے۔ ہم ایسے بیان پر محترم مجید نظامی کی یاداشت اور انکشاف پر مبارک باد دیتے ہیں۔
کلکتہ18-19 اپریل1938ء کا دن بڑی اہمیت کا حامل تھا مگر پٹنہ26-29 دسمبر 1938 ء کا بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے صدارت فرمائی اور لوگوں کو حیات آفریں کا پیغام دیا۔ لوگوں کے حوصلے بلند کیے اور عورتوں کوبیدار کیا۔ امید کی روشنی دکھائی اور ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔ سارا ملک قائداعظمؒ زندہ باد… مسلم لیگ زندہ باد ہوا۔ سارے ہندوستان میں دو قومی نظریہ کیلئے پیغام دئیے مجلس منعقد ہوئیں جلسے ہوئے اور لگاتار محنت سے 1946ء میں الیکشن میں مسلم لیگ کوکامیابی حاصل ہوئی، تاہم بلوچستان، صوبہ سرحد، چٹاکانگ میں ریفرنڈم ہوئے اور لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے۔ گویا پاکستان جمہوری انداز سے دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے مسلمانوںکے حقوق کیلئے جنگ لڑی۔ یہ بات درست ہے کہ مشائخ، صوفیاء کرام اور روحانی پیشوائوں اور سجادہ نشین کی غالب اکثریت نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی تائید کی اور اپنے معتقدین کو حمایت کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احتشام الحقؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور اس طرح کے کئی مسلم علماء نے پاکستان میں سرگرم حصہ لیا۔
اب آتے ہیں… مرکزی اسمبلی کے انتخابات دسمبر میں1945ء میں مرکزی اور 1946ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ 1946ء میں انتخابات میں ہندوستان کے الیکشن مقابلہ مسلم لیگ ، کانگریس، ہندو مہاسبھا، مجلس احرار، خدائی خدمتگار اور جمعیت العلماء ان تمام سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں مسلم لیگ کو شاندار فتح ہوئی۔ مرکز میں مسلمانوں کی34 نشستیں مسلم لیگ نے حاصل کرلیں۔ اس پر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 11جنوری 1946 کو یوم فتح منایا۔
صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں سے یوپی میں مسلم لیگ نے 65میں سے 55حاصل کرلیں۔ بمبئی میں 30کی 30مسلم لیگ نے حاصل کی۔ بہار میں 40نشستوں میں 34 مسلم لیگ نے جیت لیں۔ سی پی میں 14میں 13نشستیں حاصل کیں۔اڑیسہ میں چار کی چار حاصل کیں۔ مدراس میں30 میں سے 29 نشستیں حاصل کیں۔ بنگال میں 199 نشستیں تھیں۔ مسلمانوں نے 113حاصل کیں۔ آسام میں 34سے 31، پنجاب کی 86میں سے79، سندھ37میں سے 35 نشستیں حاصل کیں۔ صوبہ سرحد میں 38 میں سے 17 نشستیں حاصل کیں۔ وہاں پھر ریفرنڈم ہوا۔ گویا مسلم لیگ کی قیادت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی جدوجہدکے تحت 1936ء 1946ء تک کی اور پاکستان حاصل ہوا ۔ لہٰذا بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ تھے۔ خواب حضرت علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور دو قومی نظریہ کا خطبہ الہ آباد1938 میں دیا۔
بے شک پاکستان مسلمانوں کی سالہا سال کی جدوجہد، قربانیوں سے حاصل ہوا۔ جس کی قیادت حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ رہبر ملت اسلامیہ کر رہے تھے ۔ اگر مسلم لیگ کی قیادت میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نہ ہوتے تو پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا مشکل تھا۔ اللہ کا احسان ہے کہ ہمیں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میسر آئی۔
13اکتوبر 2010ء نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور کارکنان پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے زیر اہتمام کے آر اعظم محقق، محب الوطن کی کتاب کی رونمائی ہوئی جس میں اعلیٰ سطح کے اسلام سے محبت کرنے والوں نے اپنے اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا اور اسلام اور اسلام کی سوچ اس کی افادیت کے بارے میں نہایت عمدہ، تحقیقی انداز سے مصنف کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔
محترم مجید نظامی جنہوں نے اس کتاب کا پیش لفظ تحریر کیا، اپنے صدارتی خطبہ میں اپنی طالب علمی کے زمانہ کے تاریخی انکشافات کیے کہ مولانا ابو اعلیٰ مودودی صاحب سے ان کی ملاقات ہوتی رہی۔ لیکن پاکستان بنتے وقت حضرت مولانا نے 1946ء کے الیکشن میں اپنے متعلقین اور چاہنے والوں سے ووٹ ڈالنے کا مشورہ نہ دیا اور ان حضرات نے ووٹ1946ء کے الیکشن میں پاکستان یا بھارت کو ووٹ نہیں ڈالے۔ اگر خدانخواستہ ووٹ اینٹی پاکستان لوگوں کے زیادہ ہوتے تو پاکستان کیسے بنتا؟ اس طرح دیگر علماء دین کا بھی کچھ ذکر ہوا۔ جنہوں نے پاکستان کے بننے میں حصہ نہیں لیا، اکثر مجالس میں یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان سب نے ملکر بنایا۔ یہی اعتراف ہے کہ پاکستان آل انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد کی بدولت اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت کے عوض پاکستان حاصل ہوا اور جمہوری عمل سے حاصل ہوا۔ ہمارا کلیم یہی ہے کہ پاکستان عوام کی قربانیوں اور قائداعظم کی کاوش وجدوجہد سے حاصل ہوا۔ لہٰذا بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ ہیں۔ محترم مجید نظامی صاحب نے تحریک خاکساران کے بانی محترم علامہ عنایت اللہ مشرقی اور تحریک احرار کا ذکر بھی کیا کہ یہ لوگ بھی پاکستان کی مخالفت میں تھے۔
حقیقت یہ ہے۔ نواب نصر اللہ جوہر مجلس احرار کے سیکرٹری تھے۔ انہوں نے بیان دیا تھا کہ آل انڈیا نیشنل کانگریس پارٹی جو فیصلہ کرے گی۔ ہم اس کے پابند ہوں گے۔ مفتی محمود صاحب مرحوم کا بیان آن ریکارڈ ہے کہ پاکستان بنانے کی گناہ میں شامل نہیں تھے۔ سرحد میں سرخ پوش لیڈر نیشنلسٹ کانگریس کے لیڈر پاکستان کے حق میں نہ تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی،مفتی کفایت اللہ یہ لوگ بڑے عالم، بڑے مقرر اور بڑے اونچے قد کے لوگ تھے۔ مگر پاکستان بننے میں حصے دار نہ ہوسکے۔ ہم ایسے بیان پر محترم مجید نظامی کی یاداشت اور انکشاف پر مبارک باد دیتے ہیں۔
کلکتہ18-19 اپریل1938ء کا دن بڑی اہمیت کا حامل تھا مگر پٹنہ26-29 دسمبر 1938 ء کا بڑی خصوصیت کا حامل ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے صدارت فرمائی اور لوگوں کو حیات آفریں کا پیغام دیا۔ لوگوں کے حوصلے بلند کیے اور عورتوں کوبیدار کیا۔ امید کی روشنی دکھائی اور ایک نیا ولولہ پیدا کیا۔ سارا ملک قائداعظمؒ زندہ باد… مسلم لیگ زندہ باد ہوا۔ سارے ہندوستان میں دو قومی نظریہ کیلئے پیغام دئیے مجلس منعقد ہوئیں جلسے ہوئے اور لگاتار محنت سے 1946ء میں الیکشن میں مسلم لیگ کوکامیابی حاصل ہوئی، تاہم بلوچستان، صوبہ سرحد، چٹاکانگ میں ریفرنڈم ہوئے اور لوگوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالے۔ گویا پاکستان جمہوری انداز سے دنیا کے نقشہ پر ابھرا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے مسلمانوںکے حقوق کیلئے جنگ لڑی۔ یہ بات درست ہے کہ مشائخ، صوفیاء کرام اور روحانی پیشوائوں اور سجادہ نشین کی غالب اکثریت نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی تائید کی اور اپنے معتقدین کو حمایت کرنے کی ہدایت کی۔ تاہم مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا احتشام الحقؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور اس طرح کے کئی مسلم علماء نے پاکستان میں سرگرم حصہ لیا۔
اب آتے ہیں… مرکزی اسمبلی کے انتخابات دسمبر میں1945ء میں مرکزی اور 1946ء میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ 1946ء میں انتخابات میں ہندوستان کے الیکشن مقابلہ مسلم لیگ ، کانگریس، ہندو مہاسبھا، مجلس احرار، خدائی خدمتگار اور جمعیت العلماء ان تمام سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں مسلم لیگ کو شاندار فتح ہوئی۔ مرکز میں مسلمانوں کی34 نشستیں مسلم لیگ نے حاصل کرلیں۔ اس پر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 11جنوری 1946 کو یوم فتح منایا۔
صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں سے یوپی میں مسلم لیگ نے 65میں سے 55حاصل کرلیں۔ بمبئی میں 30کی 30مسلم لیگ نے حاصل کی۔ بہار میں 40نشستوں میں 34 مسلم لیگ نے جیت لیں۔ سی پی میں 14میں 13نشستیں حاصل کیں۔اڑیسہ میں چار کی چار حاصل کیں۔ مدراس میں30 میں سے 29 نشستیں حاصل کیں۔ بنگال میں 199 نشستیں تھیں۔ مسلمانوں نے 113حاصل کیں۔ آسام میں 34سے 31، پنجاب کی 86میں سے79، سندھ37میں سے 35 نشستیں حاصل کیں۔ صوبہ سرحد میں 38 میں سے 17 نشستیں حاصل کیں۔ وہاں پھر ریفرنڈم ہوا۔ گویا مسلم لیگ کی قیادت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی جدوجہدکے تحت 1936ء 1946ء تک کی اور پاکستان حاصل ہوا ۔ لہٰذا بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ تھے۔ خواب حضرت علامہ اقبالؒ نے دیکھا اور دو قومی نظریہ کا خطبہ الہ آباد1938 میں دیا۔
بے شک پاکستان مسلمانوں کی سالہا سال کی جدوجہد، قربانیوں سے حاصل ہوا۔ جس کی قیادت حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ رہبر ملت اسلامیہ کر رہے تھے ۔ اگر مسلم لیگ کی قیادت میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نہ ہوتے تو پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا مشکل تھا۔ اللہ کا احسان ہے کہ ہمیں قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میسر آئی۔