لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی جیل روڈ لاہور کے شعبہ ابلاغیات کے زیراہتمام اس تعلیمی ادارے کے اپنے آڈیٹوریم میں 13 اکتوبر 2010ء کو گیارہ بجے قبل از دوپہر پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا کی کارکردگی کے بارے میں طالبات کی ایک سروے رپورٹ پر ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا ۔ اس مذاکرے کے ابتدائی مرحلے میں شعبہ ابلاغیات کی سربراہ ڈاکٹر انجم ضیا نے اپنی ایک گھنٹے کی تقریر میں بتایا کہ میڈیا کی کارکردگی کے بارے میں سامعین و ناظرین و قارئین کی آراء معلوم کرنے کے لئے دو دو طالبات پر مشتمل 6 یونٹ قائم کئے گئے جن میں سے ہر یونٹ نے دس دس عوامی شخصیات پر مشتمل پانچ پانچ گروپوں کے ساتھ گفتگو کرکے ان کے خیالات پر مبنی اپنی رپورٹس تیار کیں۔ پھر جن لوگوں کے انٹرویوز کئے گئے آمدنی کے اعتبار سے ان کی درجہ بندی بھی کی گئی۔ انٹرویو دینے والے خواتین و حضرات کا پہلا گروپ ایسی ’’اپر کلاس‘‘ سے تعلق رکھتا تھا جس کی آمدن ڈیڑھ لاکھ تک ماہانہ یا اس سے زیادہ ہو۔ دوسرا گروپ وہ تھا جس کی ماہانہ آمدن 40 ہزار روپے سے زیادہ اور تیسرا گروپ وہ تھا کہ جس کی آمدن 40 ہزار روپے ماہانہ تک ہوتی ہے۔ آخری دو گروپ اقلیتوں اور نوجوانوں سے منتخب کئے گئے۔ یوں کوشش کی گئی کہ اس سروے میں ہر طبقے کی نمائندگی ہو جاتی۔ ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ آیا وہ نیوز چینلز کے نیوز بولیٹن اور اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے انتخاب سے مطمئن ہیں۔ ایڈیٹوریلز اینڈ فیچرز کی حقیقی، متوازن اور غیر جانبدارانہ اہمیت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ مختلف چینلز اینڈ ٹیلی ویژن پر جو مباحثاتی گروپ تشکیل دئیے جاتے ہیں وہ کس حد تک اپنی ذاتی پسند و ناپسند سے بالا ہو کر بات کرتے ہیں اور ان کے خیالات کس حد تک غیر وابستہ اور حقیقی ہوتے ہیں۔ ’’ٹاک شوز‘‘ کے بارے میں ناظرین کی رائے کیا ہوتی ہے اور کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ان ’’ٹاک شوز‘‘ سے متعلقہ موضوع کی الجھنیں سدھر جاتی ہیں یا وہ ناظرین کے دماغ و فکر میں مزید الجھاوے پیدا کر دیتے ہیں۔ اینکر پرسنز کے بارے میں ناظرین کی رائے کیا ہوتی ہے کہ وہ زیر بحث مسائل کے بارے میں خود غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں یا خیالات کا اظہار کرنے والوں کے خیالات و دماغ و آراء کو پروگرام کے دوران متاثر کرتے رہنے اور ان سے کوئی خاص قسم کے بیانات لینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ وہ سارے سوالات ہی ایسے تھے کہ جن کے بارے میں لوگوں کی رائے لی جانا مناسب تھا چنانچہ ناظرین نے وہ نتیجہ نکالا کہ ٹیلی ویژن چینلز پر خبروں کی بھرمار ہوتی ہے اور مختلف نیوز چینلز کے مابین ’’بریکنگ نیوز‘‘ میں اولیت کا کریڈٹ اچک لینے کے لئے ایک حیران کن دوڑ لگی رہتی ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ ٹیلی ویژن بھی الیکٹرانک نیوز پیپرز بنتے چلے جا رہے ہیں چنانچہ اس عجلت میں وہ اغلاط کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اعداد و شمار کی صحت محل بیان ہو جاتی ہے اور ناظرین ان پر یقین کرنے سے گریزاں ہو جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تاہم بعض ناظرین نے جن کا تعلق نوجوان طبقے اور کم آمدنی والے لوگوں سے تھا قومی اور بین الاقوامی مسائل کے بارے میں بیداری پیدا کرتے رہنے کے باب میں میڈیا کے کردار کو قابل ستائش گردانا جبکہ ناظرین کے ایک گروپ کا خیال وہ بھی تھا کہ سیاست اور سیاستدانوں کو ٹیلی ویژن چینلز پر غیر ضروری وقت دیا جاتا ہے۔ اس گروپ نے البتہ وہ اعتراف بھی کیا کہ میڈیا سیاستدانوں کے بارے میں حقائق کو بڑی محنت اور دانشمندی سے طشت ازبام کر رہا ہے۔ ڈاکٹر انجم ضیاء نے فرمایا تھا کہ میڈیا سروے کرنے کی اہمیت کو نظرانداز کئے ہوئے ہے بنابریں میڈیا کے ذریعے عوامی آراء معلوم نہیں ہو پاتی ہیں چنانچہ ہم نے عرض کیا کہ نوائے وقت نے حال ہی میں ’’کالاباغ ڈیم‘‘ کی تعمیر کے بارے میں قومی سطح پر ایک نہایت اہم ریفرنڈم کیا ہے جس کے نتائج کے مطابق پاکستان کے 90 فیصد شہریوں نے کالاباغ ڈیم کو فوراً تعمیر کرکے ان مسائل سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ دیا ہے جو کالاباغ ڈیم تعمیر کر دینے میں تاخیر کرتے رہنے سے پیدا ہو رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38