غیر فطری اتحاد اور گلگت بلتستان

گلگت بلتستان اسمبلی کے 24حلقوں پر تین سو سے زائد امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں اور پاکستان کی تینوں بڑی پارٹیموں سمیت دیگر علاقائی جماعتوں نے بھی وہاں اپنے ڈیرے جما رکھے ہیں اور آج پولنگ ڈے ہے امید ہے یہ دن بھی انتخابی مہم کی طرح خیر و عافیت سے گزر جائے گا۔ گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات کا جائزہ لیں تو وہاں اس وقت پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن اور مجلس اتحاد المسلمین کے درمیان مقابلے کی فضا ہے جب کہ آزاد امیدوار بھی بڑی تعداد میں جیت کی آرزو میں انتخابی اکھاڑے میں اترے ہوئے ہیں۔ بادی النظر میں اس وقت گلگت میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی حکومت بنتی دکھائی دیتی ہے۔گزشتہ انتخابات میں 24 سیٹوں میں سے مسلم لیگ ن 22 میں میدان مارنے میں کامیاب رہی تھی۔ لیکن اس بار ایک تو مسلم لیگ ن کی مرکز میں حکومت نہیں ہے اور دوسرا مسلم لیگ کا بیانیہ ان کیلئے پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ انتخابی جائزوں اور سیاسی ماہرین کی رائے کے مطابق وہاں مخلوط حکومت بنتی دکھائی دیتی ہے۔ کسی ایک پارٹی کیلئے اس بار حکومت بنانا جوئے شیر لانے کے متراف ہوگا۔ پاکستانی سیاست کی منافقت دیکھنی ہو یا یوں کہہ لیں کہ اس وقت اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے بیانئے کو تقسیم ہوتے دیکھنا ہو تو اس کیلئے گلگت بلتستان اسمبلی کا انتخاب لٹمس پیپر بنا ہوا ہے۔ پی ڈی ایم میں کوئی گیارہ کے قریب پارٹیاں ہیں اور جمہوریت کو اس کی اصل روح کے مطابق بحال کرنے اور ملک میں عوامی ترجمانی کی دعوے دار ہیں۔ گلگت بلتستان ان کے اتحاد کیلئے ایک ایسا میدان تھا جہاں وہ متحد ہو کر پی ٹی آئی کا صفایا کر سکتے تھے لیکن اقتدار اور طاقت کی ہوس نے انہیں وہاں جدا کر دیا ہے۔ مریم نواز جو بی ڈی ایم کے بیانئے کی اصل روح رواں ہیں وہاں پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ سکتی تھیں یاکچھ حلقوں میں ایڈجسٹمنٹ ہو سکتی تھی لیکن نہ اس کیلئے کوئی کوشش کی گئی اور نہ ہی دونوں جانب سے اس پر کوئی غور ہوا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا اتحاد ایسے ہی ہے جیسے شیر اور بکری کی دوستی یا بھیڑ اور بھیڑیے کا یارانہ ہو۔ پاکستانی عوام کو یاد ہو گا۔
جب 2008 ء کے انتخابات ہوئے تھے تو مرکز میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تھی اور دونوں جماعتوں نے تازہ تازہ میثاق جمہوریت کیا تھا اس لئے مسلم لیگ ن کے بھی چند رہنمائوں کو کو خیر سگالی کے طور پر پیپلز پارٹی نے کابینہ میں رکھا ۔اس وقت بھی ہمارا یہی موقف تھا کہ یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے یعنی آگ اور پانی کا ملاپ ہے جو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا اور وہی ہو۔ا ن لیگ کے وزرا نے بہانے بنا کر اور کرپشن اور اس طرح کے الزامات لگا کر پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لیں۔ پھر وہی نوازشریف ہیں جو آج پیپلز پارٹی کی بلائیں لے رہے ہیں، اس وقت کالا کوٹ پہن کو خود میمو گیٹ میں پیپلز پارٹی کیخلاف عدالت میں پیش ہو گئے تھے۔ خیر یہ ماضی کی باتیں ہیں حال کی جانب لوٹتے ہیں۔
گلگت بلتستان میں جس طرح بلاول بھٹو زرداری نے محنت کی ہے اور انتخاب سے ایک ماہ قبل جس طرح وہاں ڈیرے ڈالے اور جلسے جلوس کئے ہیں انکے اس عمل نے گلگت بلتستان کے عوام کو ان کا گرویدہ بنا لیا ہے اور زمینی حقاائق یہی بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اس وقت وہاں اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آتی دکھائی دے رہی ہے اور حکومت بنانے کیلئے پیپلز پارٹی ایک لازمی جزو بنے گی۔دوسرا گلگت بلتستان میں متعدد ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جس میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے کارکنان آمنے سامنے آئے ہیں اور بات ہاتھا پائی اور لڑائی جھگڑے تک گئی جو اس بات کا مظہر ہے کہ ان کے کارکنان ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔پیپلز پارٹی کے اندرونی ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کا جو جیالا ہے وہ ن لیگ کے ساتھ پارٹی کی مفاہمت کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہا جس کا نقصان پیپلز پارٹی کو آئندہ انتخابات میں ہو سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کی مریم نواز بھی وہاں جلسے جلوس کر رہی ہیں اور اپنے جلوسوں میں اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے کے دعوے کرتی ہیں اور دوسری جانب برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹر ویو میں ان کے دل کی بات زبان پر آ ہی گئی کہ اسٹیبلشمنٹ سے بات ہو سکتی ہے اگر وہ اس حکومت کو گھر بھیجے۔ یعنی انہوں نے فوج سے حکومت کو گھر بھیجنے کا براہ راست مطالبہ کر دیا ہے۔ قانونی حیثیت سے اس وقت مریم نواز ایک ضمانت شدہ مجرم ہیں ۔ ایک مجرم جو ضمانت پر ہو وہ کس حیثیت سے حکومتی اداروں سے اس طرح کے مطالبات کر سکتا ہے کہ وہ ان کی بات سنیں یا ان کے کہنے پر ایک منتخب حکومت کو جو عوامی ووٹوں سے برسر اقتدار آئی ہے ،گھر بھیج دیں۔جب ایک سیاسی طلب علم کی حیثیت سے ہم بلاول اور مریم نواز کے طرز عمل اور بیانات کو دیکھتے ہیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ بلاول میں سنجیدگی اورمیچورٹی کا لیول مریم نواز سے زیادہ ہے ۔اس کی مثال آئی جی سندھ والے واقعے سے لی جا سکتی ہے کہ اس پر آرمی چیف کی جانب سے قائم کی گئی انکوائری کا انہوں نے خیر مقدم کیا ہے جب کہ وہ مریم نواز جو ایک جانب فوج سے بات چیت کرنے کی بھیک بھی مانگ رہی ہیں( اور خود اقرار کر رہی ہیں کہ میرے ارد گرد لوگوں سے رابطے ہوئے ہیں جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ رابطے ان کی جانب سے خود کئے جا رہے ہیں )اور دوسری جانب اسی فوج کے سپہ سالار کی قائم کی گئی انکوائری رپورٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔ جس طرح پی ڈی ایم کا یہ غیر فطری اتحاد گلگت بلتستان کے انتخابات میں الگ ہوا ہے ،یہ تادیر قائم نہیں رہنے والا اور پاکستانی عوام جلد ہی جوتوں میں دال بٹتی دیکھیں گے ۔