
شاعر مشرق حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا یوم ولادت 9 نومبر کو بھرپور عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر کر اب تک آپ کے یوم ولادت کے موقع پر پورے ملک بھر میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر چھٹی ہوا کرتی تھی۔ جسے پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں اس شاعر مشرق کی ولادت پر ہونے والی چھٹی کو ختم کردیا گیا مگر افسوس کے اسکے بعد نواز شریف کی حکومت آئی تو نون لیگ کی حکومت نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہ دی بلکہ ان کے دور اقتدار میں جب سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے میاں حمزہ شہباز نے اس وقت منٹو پارک کو گریٹر اقبال کا نام دے کر پارک میں توسیع کی تو جو سڑک بادشاہی مسجد اور مزار اقبال کے آگے سے گزرتی تھی جہاں سے اقبال کے عاشق بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ میں جانے والے لوگوں کا راستہ تھا وہ ان کے دور اقتدار میں بند ہوگیا اور گریٹر اقبال پارک کے چار گیٹ بنا دیے گئے جو دور دراز سے ایک لمبا چکر کاٹ کر مزار کے احاطہ میں جانا پڑتا ہے اور وہاں پارک کے گیٹ پر سکورٹی کو کھڑا کیا گیا ہے ۔ باوجود اس کے جو لوگ کسی نہ کسی طرح سے مزار اقبال کے احاطہ کے مین گیٹ تک پہنچتے ہیں تو وہاں پر بھی ایک سخت سیکورٹی کا انتظام موجود ہوتا ہے خاص کرکے نو نومبر کو آپ کے یوم ولادت کے موقع پر اسپیشل آرمی اور رینجرز کے جوانوں اور پولیس کی بھاری نفری کو وہاں پر تعینات کیا جاتا ہے وہاں پر اقبال کے عاشقوں کو تین سے چار مرتبہ یہ سیکورٹی والے چیک کرتے ہیں اور بلاوجہ گیٹ کے باہر کھڑا رکھتے ہیں باوجود انہیں اس طرح کی تلاشی اور چیکنگ کرنے کے باوجود بھی انہیں نہ تو آنے والے لوگوں پر اور نہ ہی اپنے آپ پر یقین ہوتا ہے اس بے یقینی کی صورتحال کے پیش نظر ایک بار پھر ان عاشقوں کو مزار اقبال کے سامنے پھر روک لیا جاتا ہے مزار کے اندر جانے کے لیے آخری مرحلہ پر اس اتنے بڑے ہجوم کو کو پھر وہاں روکا جاتا ہے یاد رہے کہ یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ جن لوگوں کا تعلق واسطہ ہوتا ہے وہ لوگ اس مزار پر اندر چلے جاتے ہیں اور دوسرے بہت سارے لوگ باہر کھڑے ہو کر ہی فاتحہ خوانی کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ انتہائی افسوس کے ساتھ نون لیگ کی حکومت میں بھی ایسا ہی تھا اور اب تحریک انصاف کی حکومت کے دوران بھی اس مزارِ اقبال پر آنے والے لوگوں سے یہی سلوک جاری و ساری ہے اس بار کرونا وائرس کی دوسری لہر میں تیزی آنے کے باعث بھی ان لوگوں نے اس کا بھی بہانہ بنائے رکھا کہ اس لیے ہم زیادہ لوگوں کو اندر نہیں جانے دیتے راقم الحروف ہر سال نو نومبر کو بہت ہی پیارے قابل احترام دوست اور علامہ اقبال کے شیدائی عاشق جو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ ہائی سکول جہانگیر آباد لاہور کے ہیڈ ماسٹر سجاد گل کے ہمراہ مرزا اقبال پر جانے کا موقع ملتا ہے ہمیں پہلے گریٹر اقبال پارک گیٹ پر روکا گیا پھر مزار اقبال کے احاطہ کے گیٹ پر روکا گیا پھر مزار کے قریب پہنچ کر پولیس اور فوج کے جوانوں نے ہمیں اور ایک بہت بڑے ہجوم کو پھر روک لیا گیاوہاں پر ہماری ملاقات ایک ایسی شخصیت رفیع اللہ سے ہوئی جو تھانہ راوی روڈ لاہور میں بطور ایس ایچ او تعینات ہیں آپ بھی حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے شیدائی اور سچے عاشق ہیں مگر اس دن ان کی اسپیشل نفری کے ہمراہ مزار اقبال کے احاطہ میں ڈیوٹی تھی اس دوران لوگ ان سے حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری سے مستفید ہوتے رہے۔ اس نجی ٹی وی شو ''آپ کی آواز'' میں اقبال کے موضوع پر ان کے یوم ولادت کے حوالہ سے ایک نشست ہوئی پھر ان کی وساطت سے ہمیں مزار اقبال کے اندر جانے کا موقع ملا جب ہم فاتحہ خوانی کر کے باہر آئے تو وہ اتنا بڑا عاشقوں کا ہجوم موجو اور پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چکا تھا ۔ ایسے حالات پر حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے…؎
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
٭…٭…٭