جمعۃ المبارک‘17 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 15؍ نومبر2019 ء
پاکستان میں 11 ہزار 8 سو سکھ یاتریوں کو طبی امداد دی گئی
بابا گرونانک کے جنم دن اور کرتارپور راہداری کے افتتاح کی تقریب میں دنیا بھر سے ہزاروں سکھ یاتری پاکستان آئے۔ حیرت انگیز طور پر بھارت سے کرتارپور آنے کے لیے جن یاتریوں کو اجازت دی گئی وہ سب بابے اور مائیاں تھیں۔ نوجوان نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہر طرف عمر رسیدہ سردار جی اور سردارنیاں ہولے ہولے قدم اُٹھاتی پولے پولے منہ سے واہگرو کی مالا جپتی نظر آ رہی تھیں۔ اکثریت ایک دوسرے کے سہارے چل رہی تھی۔ اس پر لوگ بہت حیران ہیں۔ سکھ بھی پنجاب کی مٹی سے بنے ہیں۔ ان میں گھبرو جوان بھی ہیں مٹیاریں اور بانکی ناریں بھی مگر پاکستان میں ان عمر رسیدہ یاتریوں کو بھارت نے بھیج کر سکھوں کی نوجوان نسل پر بہت ظلم کیا۔ بھارت جانتا ہے کہ یہ سکھ نوجوان جو تعلیم یافتہ ہیں جدید دور اور ماحول کو سمجھنے اور پرکھنے کی طاقت رکھتے ہیں اگر پاکستان گئے تو کہیں
میں نکلا گڈی لے کے رستے میں
لاہور آیا میں اوتھے دل چھوڑ آیا
والی بات سچ نہ ہو جائے اور یہ نوجوان واپس آ کر پاکستان اور عمران خان زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آئیں۔ مگر یہ چانکیائی پالیسی کب تک چلے گی۔ یورپ امریکہ اور کینیڈا سے آنے والے نوجوان سکھ تو اب کھل کر بیرون ملک پاکستانیوں کو جپھیاں ڈالتے نظر آتے ہیں۔ بہرحال ان معمر سکھ یاتریوں کی بڑی تعداد موسم کی وجہ سے یا عمر کے ہاتھوں صحت کے مسائل سے دوچار ہوئی مگر محکمہ صحت نے ان کے لیے جو بھرپور اقدامات کئے تھے اس کے باعث 11 ہزار سے زیادہ یاتریوں کو فوری طبی امداد دی گئی جس سے وہ بھلے چنگے رہے اور یاترا مکمل کی۔ ورنہ بھارت کی سازش تھی کہ یہ بیمار بوڑھے یاتری پاکستان جا کر سورگ باش ہو جائیں اور وہ پاکستان پر بدانتظامی یا ناقص انتظامات کا الزام لگائے مگر شکر ہے ایسا کچھ نہیں ہوا۔
٭٭٭٭٭
قاسم سوری کیخلاف تحریک پر شعبہ قانون سازی کا اعتراض
عجیب قسمت پائی ہے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے۔ مسئلہ کوئی بھی ہو نزلہ ان پر ہی گرتا ہے یا گرایا جاتا ہے۔ خدا خدا کر کے بڑی مشکل سے غیبی امداد کے سبب وہ ایک مرتبہ ذبح ہونے سے بچ پائے ہیں۔ مگر نجانے کیوں اپوزیشن کو ان سے خاش ہے۔ وہ ایک بار پھر چھریاں تیز کر کے ان کے پیچھے پڑی ہے۔ دیکھتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ سابقہ تحریک عدم اعتماد کے بعد ابھی تک قاسم سوری صاحب کا اعتماد خدا خدا کر کے بحال ہونا شروع ہوا تھا کہ اپوزیشن والے ایک بار پھر ان کا اعتماد متزلزل کرنے پر تلے ہیں۔ ان کے خلاف پھر تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ حکومتی ادارے انہیں بچانے کے لیے مختلف قانونی نکات کا سہارا لے رہے ہیں دیکھنا ہے اب حکومتی کوششوں سے انہیں تحفظ ملتا ہے یا وہ اپوزیشن کی کند چھری سے مرغ بسمل بنتے ہیں۔ پاکستانی سیاست عجیب گھن چکر ہے جہاں آئے روز نت نئی گھمن گھیریاں وجود میں آتی ہیں اور اقتدار کی چھت پر نصب مرغ بادنما اس کی زد میں آ کر چکر پہ چکر کھاتے گھومتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ نجانے کب تک چلے گا۔ کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ٹماٹر، چلغوزہ اور آٹے کے بعد اب قاسم سوری ایک بار پھر موضوع بحث بن رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ایم پی اے مرزا محمد جاوید کا اپنی تمام جائیداد نواز شریف کے نام کرنے کا اعلان
یہ ہوتی ہے اپنے قائد سے محبت۔ گرچہ پیپلز پارٹی کے جیالوں کی طرح ابھی تک کوئی مسلم لیگی متوالہ ایسا سامنے نہیں آیا جو خودسوزی کر کے اپنے قائد کی رہائی کا مطالبہ کرے۔ یہ حوصلہ صرف جیالوں میں تھا۔ اب وہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کیونکہ اب پیپلز پارٹی زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ بھٹوز کب کے ختم ہو چکے۔ ہاں البتہ مسلم لیگ کے ایک جیالے نے اپنے جسمانی اعضا میاں نواز شریف کے نام کرنے کا اعلان ضرور کیا تھا۔ یعنی میاں جی کو جن جسمانی اعضا کی ضرورت ہو وہ ان کی طرف سے میاں جی کو لگائے جائیں۔مگر نجانے کیوں مسلم لیگ والوں نے اس متوالے کی پذیرائی کیوں نہیں کی۔ شاید وہ جانتے ہیں کہ غریب آدمی کے اعضا اور امیر آدمی کے اعضا میں اور ان کی کارکردگی میں فرق ہوتا ہے۔ وہ بھلا کسی عام کارکن کے بیمار لاغر اعضا میاں جی کو کیوں لگائیں۔ اب ایم پی اے مرزا محمد جاوید نے اپنی 25 کروڑ کی جائیداد ان کے نام کرنے کے ساتھ حکومت کو پیشکش کی ہے کہ جب تک میاں جی واپس نہیں آتے انہیں (مرزا جاوید) قید رکھا جائے۔ اب ان کے اس اعلان سے باقی رہنما سوچ رہے ہوں گے کہ مرزا جاوید تو بازی لے گیا۔ یہ نادر خیال ان کے دماغوں میں کیوں نہیں آیا۔ مگر ساتھ ہی انہیں اپنی بے نامی اور نامی وسیع جائیدادوں کی محبت نے قائد کی محبت کے حصار سے باہر کھینچ نکالا ہو گا کہ یہ دولت کا معاملہ سیاست کا نہیں ، سیاست تو اس خزانے میں اضافہ کے لیے ہی کی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭
میرے لئے سستا شادی ہال تلاش کریں۔ سعودی بیٹی کا والد کو پیغام
یہ پیغام نہیں ایک تیر تھا جو کئی دلوں کو چھید گیا۔ اس غریب لڑکی کے والدین کے نام اس کے پیغام پر کئی شادی ہال والوں نے مفت ہال کی پیشکش کی ، کئی کیٹرنگ والوں نے مفت کھانے پینے کی آفر کی۔ کئی لوگوں نے جہیز کے لئے تحائف بھیجے ، کئی ہوٹلوں نے شادی کے بعد تین دن مفت قیام و طعام کی دعوت دی ہے۔ یہ اس ملک میں ہوا جہاں دولت بارش کی طرح برستی ہے۔ ایک غریب بیٹی کی فریاد پر ہزاروں دل تڑپ اٹھے۔ سعودی حکومت ازخود بھی ایسے لوگوں کی بھرپور امداد کرتی ہے۔ اس کے برعکس گرچہ پاکستان میں ایسے معاملات میں حکومتی سطح پر زیادہ فعال کردار ادا نہیں کیا جاتا مگر نجی طور پر کئی ادارے تنظیمیں اور مخیر حضرات اجتماعی شادیاں کرا کے یا انفرادی طور پر لڑکی والوں کی معاونت ضرور کرتے ہیں جو بہت ثواب کا کام ہے۔ یوں تو پاکستانی دنیا میں سب سے زیادہ صدقہ خیرات کرتے ہیں۔ اگر وہ اس صدقہ خیرات کا کئی ہزار گنا زیادہ اجر پانا چاہتے ہیں تو وہ منظم ہو کر یا انفرادی طور پر ہر سال ان بھاری رقوم سے ماں باپ کی دہلیز پر بوڑھی ہوتی لاکھوں لڑکیوں کی شادیاں عزت و آبرو سے کرا کے دنیا میں ہی جنت خرید سکتے ہیں۔ امید ہے اس خبر کو پڑھ کر لاکھوں پاکستانیوں کی نظریں اپنے اردگرد بسنے والی غریب لڑکیوں کی طرف ضرور اٹھیں گی ۔اگر وہ ان کے ہاتھوں میں بھی مہندی رچانے کا بیڑا اٹھائیں تو ایک ہی سال میں کئی لاکھ لڑکیاں دلہن بن کر اپنا گھر آباد کر سکتی ہیں تو پھر نیک کام میں دیر کیوں۔ گھر اجاڑنا نہیں بسانا سب سے افضل نیکی ہے۔
٭٭٭٭٭