ریت

وہ بچپن سے سنتی آ رہی تھی کہ ’’تمہارا کوئی بھائی نہیں ہے۔ جب تم چلی جائو گی تو تمہارے اماں ابا کا کیا ہو گا؟ یہ جملہ اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آیا۔ بیٹا ہو یا بیٹی جب تک دنیا میں ہے، اپنے ماں باپ کی زندگی سے کیسے نکل سکتا ہے؟ سسرال میں جب اسے پہلی بار یہ کہا گیا کہ ’’بیٹا آج سے میں تمہاری ماں ہوں اور تمہارے سسر تمہارے بابا۔ اچھی لڑکیاں میکے سے دل لگا کر نہیں رکھتیں۔ کہتے ہیں کہ ایک بار سسرال جائو تو بس تمہاری لاش ہی وہاں سے میکے جائے۔‘‘ اچھی لڑکیاں‘‘؟ وہ اکثر سچا کرتی تھی۔ ماں تو صرف وہی ہوتی ہے نہ جو رات کو نیند سے اٹھ کر دودھ پلاتی ہے۔ باپ تو صرف وہی ہوتا ہے نہ جو دھوپ میں سایہ اور بارش میں چھتری ہمارے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ ماں اور بابا، یہ الفاظ میں نے اس وقت بولنا سیکھے جب مجھے کوئی اور لفظ بولنا نہیں آتا تھا۔ چونکہ بچہ بولنے سے پہلے محسوس کرنا سیکھتا ہے اور یہ دو الفاظ میں نے محسوس کئے تھے…وہ یہی سوچتے سوچتے شام سے رات کر دیتی۔ کسی عام انسان سے یہ غیر معمولی توقع رکھ لینا کہ وہ جب پک کر پھل بن جائے تو اپنی جڑ کو بھول جائے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ ماں باپ بیٹی کے گھر کا پانی نہیں پی سکتے۔ یہ کون سی کتاب میں لکھا ہے؟ ہر نیا رشتہ اگر سچا ہے تو اپنی جگہ خود بنا لے گا۔ اُسے پرانے رشتہ کی جگہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی…لیکن اب وہ بدل گئی ہے۔ وہ جب ساحل سمندر پر جاتی ہے تو پہلے تو ریت پر اپنی بیٹی کے پائوں کے نشان بنتے دیکھتی ہے۔ پھر ان نشانوں کو ریت سے ہی تحلیل ہوتے دیکھتی ہے۔ اُسے لگتا ہے کہ وہ مٹی سے نہیں ریت سے بنی ہے۔