جس اعتماد سے مولانا نے آزادی مارچ شروع کیا تھا اور جس انداز میں وہ وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ مانگ رہے تھے اس سے لگتا تھا کہ مولانا اگر استعفیٰ نہ لے سکے تو کم ازکم نئے انتخابات کی تاریخ ضرور لے کر اسلام آباد سے واپس جائیں گے۔ ان کا ساتھ دینے والی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دونوں نے مولانا کے آزادی مارچ کی حمایت تو کی تھی لیکن عملاً اس مارچ کو موثر بنانے کے لئے انہوں نے اس طرح کوشش نہیں کی جس طرح کا حالات تقاضا کررہے تھے۔ ایک آدھ مرتبہ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شہبازشریف اور پی پی پی کی طرف سے بلاول بھٹو نے مولانا کے پشاور موڑکے جلسہ سے خطاب کیا اور پھر غائب ہوگئے۔ اے این پی کے راہنما اسفند یار ولی نے بھی ایک خطاب تک اپنے آپ کو محدود رکھا۔ البتہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے مولانا کا ساتھ دیا اور وہ کئی مرتبہ آزادی مارچ کے جلسے سے مولانا کے خطاب کے دوران ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے رہے۔
گزشتہ روز مولانا نے پلان بی پر عملدرآمد کا اعلان کیا۔ ’’پلان بی ‘‘ کے تحت اب آزادی مارچ کو چاروں صوبوں میں پھیلایا جائے گا۔ شاہراہیںبند کی جائیں گی۔ ٹریفک میں خلل ڈالا جائے گا۔ جے یو آئی کے مطابق پلان بی کے بعد ’’پلان سی‘‘ بھی ہے۔ جس پر بعدمیں عملدرآمد ہوگا۔
جب کراچی سے مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ شروع کیا تو تاثر یہ تھا کہ کوئی طاقت ور لابی یا گروپ مولانا کو تھپکی دے رہا ہے کہ آزادی مارچ ضرور کریں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف ملک کے گلی کوچوں میں لوگ غصے سے بھرے ہوئے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔ لوگ آزادی مارچ کو ’’ویلکم‘‘ کہیں گے۔ کسی ’’قوت‘‘ کے مولانا کی پشت پر ہونے کے حوالے سے کئی سازشی نظریے گردش کرتے رہے۔ مولانا نے پشاور موڑ کے اجتماع سے خطاب میںجو سخت لب ولہجہ اپنایا اس سے بھی کئی حلقے یہ تاثر لے رہے تھے کہ ’’کوئی نہ کوئی‘‘ ہے جو ضرور مولانا کو یقین دلا رہا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے۔ حکومت پر مزید دباؤ بڑھائیں۔ کم وبیش اسی طرح کے حالات 2014ء میں بھی تھے جب موجودہ وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے علامہ طاہر القادری ہزاروں فالورز کے ساتھ ڈی چوک تک پہنچ گئے تھے اور انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کرنا شروع کیا۔ ایک سو 26 روز کے اس دھرنے میں کئی مواقع پر یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ وزیراعظم نوازشریف مستعفی ہونے والے ہیں۔ (ن) لیگ کی حکومت میں شامل وزراء اور دوسرے اہم لیڈر یہ کہہ رہے تھے کہ عمران خان اور مولانا طاہر القادری کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ وزیراعظم خود اسمبلیاں تحلیل کر دیں اور اپنے منصب سے مستعفیٰ ہو جائیں۔ ا س دھرنے کو ختم کرانے کے لئے وزیراعظم نوازشریف نے اس وقت چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے بھی کہا کہ وہ حکومت اور دھرنے والوں کے درمیان بات چیت کے ذریعہ مسئلہ حل کرائیں۔ عمران خان اور مولانا طاہر القادری نے اس وقت کے آرمی چیف سے ملاقاتیں بھی کیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ کا پارلیمنٹ ہاؤس سے خطاب کے دوران بولا گیا وہ مشہور جملہ کہ’’ امپائر کی انگلی اُٹھنے والی ہے‘‘ ابھی تک کانوں میں گونج رہا ہے۔ اس کے باوجود وزیراعظم نوازشریف اور پارلیمنٹ نے انہیں اپنی مدت پوری کی اور وقت پر 2018ء میں انتخابات منعقد ہوئے۔
جے یو آئی اور اپوزیشن جماعتوں کا آزادی مارچ 2014ء کے پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے دھرنوں سے مختلف نہیں ہے۔ 2014ء کا دھرنا وزیراعظم کا استعفیٰ لینے میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ 2019ء کے دھرنے کی کامیابی کے امکانات بھی نہیں تھے لیکن مولانا نے حکومت کے خلاف نعرہ مستانہ بلند کر دیا ۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ مولانا کے ساتھ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے ہاتھ کر دیا ہے۔ دونوں جماعتیں اپنے کارکنوں کو موبلائیز کرنے اور انہیں مولانا کے مارچ میں شریک ہونے کے لئے اس طرح کام نہیں کیا جس طرح مولانا کو توقع تھی۔ یہ سارا شو جمعیت علمائے اسلام کا شو تھا۔ اس کے باوجود دو ہفتے تک تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے کارکن اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ اس دوران مذاکرات بھی ہوئے‘ چوہدری برادران بھی درمیان میں آئے اور انہوں نے مسئلہ حل کرانے کی کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی۔اطلاع یہ بھی گردش کررہی ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ (ق) کے راہنما چوہدری شجاعت حسین کو ساری صورت حال سے آگاہ کر دیا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ وہ دھرنا ختم کرکے دوسرے شہروں کا رخ کررہے ہیں۔ مولانا (ن) لیگ اور پی پی پی کی بے وفائی سے بھی دلبرداشتہ لگتے ہیں یہ اطلاع بھی ہے کہ پشاور موڑ کا دھرنا نوازشریف اور آصف علی زرداری کو جیلوں سے نکلوا کر ہسپتالوں تک پہنچانا تھا۔ یہ دونوں مقاصد تو قریباً قریباً حاصل ہوچکے ہیں۔
اب ’’پلان بی‘‘ پرعملدرآمد ہوگا۔ اس پلان کی کامیابی کے امکانات محل نظر میں پنجاب اور سندھ میں اگر مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی ساتھ نہ ہوئیں تو اس پلان کا ہدف حاصل کرنا مشکل ہوگا۔ مولانا ایک زیرک سیاست دان ہیں انہیں معلوم ہے کہ جب تک ساری سیاسی جماعتیں ایک پیج پر نہ ہوں اور انہیں نادیدہ قوتوں کی بھرپور حمایت حاصل نہ ہو تو احتجاجی تحریکوں کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ 1977ء کی تحریک کی کامیابی کی وجہ حکومت مخالف ساری جماعتوں کا یکجا ہونا اور اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں بھٹو حکومت کا خاتمہ ہوا اور ملک میں مارشل لاء لگا۔ مولانا کے ’’آزادی مارچ‘‘ کے نتیجے میں اگر موجودہ حکومت سے لوگوں کو ’’آزادی‘‘ نہ مل سکی تو اس کا ایک اثر یہ ہوگا کہ تحریک انصاف کی حکومت انتہائی مضبوط ہوگی اور اسے باقی چار سال کے لئے کوئی داخلی سیاسی چیلنج نہیں ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024