بھارت جہاں ہر روز سینکڑوں ‘ملالائیں‘‘ موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں
بظاہر بھارت کو تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ایک ایسا ملک قرار دیا جاتا ہے جاں انسانیت کا بول بالا اور حقوق انسانی کے ڈنکے بجتے ہیں۔ عورت کو دیوی اور نچلی ذات والوں کو برہمنوں کے برابر عزت دی جاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نچلی ذات کے ہندو جو بھارت کی کل آبادی کا 30 فیصد ہیں ان سب کو آج بھی تین ہزار سال سے رائج ریت رواج کے مطابق اچھوت اور اونچی ذات والوں کی طرف سے طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی پر عبرت ناک سزاؤں کا مستحق سمجھا جاتا ہے۔ اکثر برہمنوں یا اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے نزدیک دلت عورت کا قتل اس لئے بھی جائز ہے کہ وہ دلتوں کی آبادی میں اضافے کا سبب بنتی ہے‘ اس لئے اچھوت لڑکیاں اعلیٰ ذات والوں کا خصوص ہدف ہوتی ہیں۔ اچھوتوں کو آج بھی اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے گھروں کی دہلیز یا مندروں میں داخلے کی اجازت نہیں۔ نیو دہلی و ممبئی اور چند دیگر بڑے شہروں میں جہاں کا رہن سہن بیرون ملک دھوکہ دینے کے لئے مغرب زدہ بنا دیا گیا ہے وہاں بھی دلت یا نچلی ذات والوں کے بچے ایسے کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتے جہاں اعلیٰ ذات والوں کے بچے بڑھتے ہوں۔ بھارت میں جب غیر ملکی صحافی بھارتی حکمرانوں سے سوال کرتے ہیں کہ نچلی ذات والوں کا قتل ہو‘ ان کی خواتین کی عصمت دری یا بلوے و فساد کا ماحول برپا کر کے ان کی املاک جلانے‘ قتل و غارت گری کرنے‘ ان کی دکانیں و مال اسباب لوٹنے پر قانون حرکت میں کیوں نہیں آتا توانہیں معصومیت سے جواب دیا جاتا ہے کہ ’’نچلی ذات والوں کے خلاف جرائم کے سلسلے میں بھارت میں خصوصی قوانین لاگو ہیں جو سب جمہوری اصولوں کے مطابق پارلیمنٹ میں کثرت رائے سے منظور کئے گئے تھے‘‘۔صرف نچلی ذات کے ہندو ہی نہیں اقلیت بھی بھارت میں اسی طرح کے مظالم کا شکارہے جس میں خواتین زیادہ ظلم برداشت کرتی ہیں۔
چند دن قبل بہار میں بجرنگ دل کے 100 کے قریب غنڈوں نے ایک مسیحی خاتون کو عریاں کر کے پورے بازار میں گھمایا۔ اس کا قصور اتنا تھا کہ بازار سے گزرتے ہوئے چھیڑ خانی کرنے پر اس نے مزاحمت کی جو اونچی ذات کے ہندوؤں کو ناگوارگزری۔ عریاں حالت میں گھماتے ہوئے خاتون پر گھونسے اور لاتیں برسائے جاتے رہے۔ وہ تھک کر گرتی تو اسے بالوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیا جاتا۔ درجن بھر غنڈے عورت ذات کی اس طرح تذلیل کو موبائل فون کیمروں میں عکس بند کرتے رہے۔ آج یہ ویڈیو ہر طرف وائرل ہو چکی ہے لیکن دنیا بھر میں کوئی بھارت کی مذمت کرنے کو تیار نہیں جبکہ اس طرح کے واقعات پر بھارتی پولیس محض تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے احتجاج پر مقدمہ درج ہو بھی جائے تو گرفتاریاں نہیں ہوتیں۔ کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں ہوتا۔2 نومبر 2018ء کو نچلی ذات کی 13 برس کی لڑکی کا اعلیٰ ذات کے ایک ہندو نے سر کاٹ ڈالا۔ یہ وقوعہ تامل ناڈو صوبے کے ضلع سالم میں پیش آیا۔ اعلیٰ ذات کے ہندو کے سامنے آنا اور اس کی طرف سے بار بار کہنے کے باوجود راستہ نہ چھوڑنا کم سن دلت لڑکی کا ناقابل معافی جرم بن گیا۔ بھارتی پولیس اور بھارت کا قانون اس طرح کے خون ناحق پر حرکت میں آنے کو تیار نہیں۔ اس قتل کے خلاف احتجاج ہوا۔ مقدمہ بھی درج ہوا لیکن قاتل کو گرفتارکرنے کی بجائے پولیس نے مقتولہ کے ورثہ کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔
اترپردیش کے علاقے رائے بریلی میں 4 نومبر 2018ء کو ایک نوجوان خاتون تھانے کے گیٹ پر پہنچی۔ تھیلے سے پٹرول کی بھری بوتل نکال کر اس نے پوری بوتل سر پر خالی کر دی۔ اس سے قبل کہ و ہ خود کو آگ لگاتی ایک خاتون پولیس کانسٹیبل سمیت تین چار پولیس والوں نے اس کو قابوکر لیا۔ تھانے میں الیکٹرانک میڈیا کے چند نمائندے پہلے سے موجود تھے وہ بھی باہر نکلے۔ انہوں نے خود پر تیل چھڑکنے ورالی خوبرو خاتون سے خود کشی کی وجہ پوچھی تو وہ جیسے پھٹ پڑی۔ اس نے بتایا کہ بھارتیا جنتا پارٹی کے ایک لیڈر نے اس کے چھوٹے بھائی کو ایک سال پہلے قتل کر دیا تھا۔ وہ تب سے ایف آئی آر کٹانے کے لئے اس تھانے کے چکر کاٹ رہی ہے۔ ایف آئی آر تو نہیں کٹی‘ بھائی کے قاتل نے اس کی چھوٹی بہن کو اجتماعی زیادتی کے بعد قتل کر دیا۔ پولیس نے پھر بھی کچھ نہیں کیا۔ بی جے پی کے لیڈر نے سزا کے طور پر خود بھی اس کے ساتھ زیادتی کی اور اپنے ساتھی غنڈوں کے ذریعے بھی اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ اب تھک چکی ہے اور سمجھتی ہے کہ شاید اسے بھی بھائی اور بہن کی طرح بے دردی سے قتل کر دیا جائے گا۔ ماں باپ سے متعلق میڈیا والوں کے سوال کرنے پر اس نے روتے ہوئے کہا کہ چند برس پہلے بی جے پی کے انہی غنڈوں نے اس کی ماں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ باپ کے مزاحمت کرنے پر ماں اور باپ دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ وہ گزشتہ 15 روز سے سارا دن اپنی 2 چھوٹی سی بیٹیوں کے ساتھ اسی جگہ تھانے کے گیٹ پر بھائی اور بہن کے قتل کی ایف آئی آر کے لئے درخواست لئے سارا دن بیٹھی رہتی ہے۔ رات وہ بیٹیوں کے ساتھ سول ہسپتال میں گزارتی ہے۔ بی جے پی کے غنڈے دن بھر تھانے میں ان پولیس والوں کے سامنے ٹھٹھے لگاتے ہیںاور الٹا اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک ٹی وی نمائندے کے سوال پر اس نے اپنے ماں باپ‘ بھائی اور بہن کے قاتلوں کا نام بتاتے ہوئے انکشاف کیا کہ و ہ سب بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ کے قریبی رشتے دار ہیں۔ وہ جانتی ہے اسے انصاف نہیں ملے گا اور شاید مار بھی دی جائے تو پھر وہ خود کشی نہ کرے تو اورکیا کرے۔ جتنی دیر ٹی وی کے نمائندے سوال جواب کرتے رہے خاتون کانسٹیبل سمیت 3 پولیس والوں نے مظلوم عورت کو پکڑے رکھا۔ اس کے بال اور پٹرول سے تر کپڑے ویڈیو کلپ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کسی بھی بھارتی ٹی وی چینل نے مظلوم خاتون کی مذکورہ خبر یا بات چیت نشر نہیں کی نہ ہی کسی اخبار نے اسے خبر بنایا کیونکہ خاتون کا تعلق دلت طبقے سے تھا۔ تاہم ایک ٹی وی نمائندے نے 2 منٹ دورانیے کا ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کر کے بھارت کی ترقی‘ وہاں انسانی حقوق کے احترام‘ قانون کی عملداری اور نظام عدل کا پردہ چاک کر دیا اور اگر اعلیٰ ذات کی کسی ہندو خاتون کا مسئلہ ہو تو پھر 2 نومبر 2018ء کو بھارت ہی کے
شہر پٹنا میں زیر تربیت 400 کے قریب مرد و خواتین‘ پولیس والے پولیس ہیڈ کوارٹر پر ہلہ بول کر وہاں فرنیچر اور سرکاری گاڑیوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ پٹنا پولیس لائین کے انچارج نے ان کی زیر تربیت ساتھی سبیتا کماری کو اس کے ٹائیفائیڈ و ڈینگی میں مبتلا ہونے کے باوجود یہ کہہ کر چھٹی دینے سے انکار کر دیا تھا کہ پولس لائن کے ہسپتال میں اس کا بہتر علاج ہو رہا ہے۔ جہاں وہ دو ہفتے تک داخل رہنے کے باوجود موت کا شکار ہو گئی۔ حملہ آور زیر تربیت پولیس والوں نے ہیڈ کوارٹرکے انچارج پولیس کے اعلیٰ افسران کی اتنی درگت بنائی کہ انہیں بھاگ کر جان بچانی پڑی۔ اس کے باوجود سوائے انکوائری کے حکم نامے کے نہ کوئی مقدمہ بنا نہ گرفتاری عمل میں آئی کیونکہ مسئلہ ایک اونچی ذات سے تعلق رکھنے والی پولیس کانسٹیبل کا تھا لیکن اسی بھارت میں ہر سال ہزاروں لڑکیاں جنم لینے سے پہلے ہی اسقاط حمل کے ذریعے مار دی جاتی ہیں۔ اور پیدائش کے بعد بھی نومولود اور کمسن بچیوں کو زندہ دفن کرنے یا مختلف قدیمی حربوں کے مطابق ان کی جان لینے کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ بھارت سے وابستہ مفادات اور بڑی استعماری قوتوں کے بھارت کے ساتھ جڑے سیاسی مقاصد کی خاطر بھلے مغربی میڈیا بھارت کے خوبصورت تاثر کو اجاگر کرنے کے لئے اس کی ترقی کے گن گاتا رہے۔ انسانی حقوق اور اخلاقی گراوٹ کے طورپر جو حال داخلی طور پر بھارت کا ہے تاریخ میں تمام تر انسانی مسائل کے باوجود اس ملک کے اتنے برے حالات کبھی نہیں رہے۔ جسے چھپانے کے لئے بھارتی حکمران کبھی اقلیتوں کو تختہ مشق بنا کر تو کبھی ہمسایہ ممالک سے کشیدگی کا تاثر دے کر اپنی عوام ہی نہیں پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔