بااختیار مگر … باوقار
گزشتہ سے پیوستہ
آج مشرقی روایات کے حامل معاشروں میں بڑھتی ہوئی بے حجابی‘ عریانی اور فحاشی کا ذمہ دار عورت کو گردانا جاتا ہے۔ اور اس کا سبب ویمن ایمپاورمنٹ کے نام پر خواتین کی معاش کے ان شعبوں میں شمولیت ہے۔ جہاں ان کی ضرورت نہیں ہے۔ محض شو پیس کے طور پر ان کو مصنوعی آسامیوں پر تعینات کیا جاتا ہے۔ جسم کو عریاں کر کے حسن کی نمائش کے بل پر روزی کمانا ویمن ایمپاورمنٹ نہیں ہے۔ بحیثیت مسلمان عورت کوئی بھی ورکنگ ویمن خواہ وہ لبرل ہو یا دینی مزاج کی ہو اس کا بہرحال اپنے خالق حقیقی سے کبھی نہ ٹوٹنے والا ایک رشتہ ہے اﷲ تعالیٰ اپنی بندیوں کو معاشی طور پر خود مختار دیکھنا چاہتا ہے اس لئے اس نے وراثت میں بیٹیوں بہنوں کا حصہ‘ بیوی کا حق مہر نان و نفقہ اور ماں کی حیثیت سے بیٹے کی جائیداد میں اس کا حصہ مقرر کیا جاتا ہے اور حدیث مبارکہ کے مطابق بیوی کی حیثیت سے عورت کو اختیار دیا گیا ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر بھی اس کے رکھے ہوئے روپے پیسے سے اپنی ضرورت کا حصہ لے سکتی ہے۔ اگر شوہر بخیل ہو تو ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت میں وہ تمام ضرورتیں شامل ہو سکتی ہیں۔ جو معاشرت و معاش سے متعلق بھی ہو سکتی ہے اور ایک باعزت روزگار کے حصول کے لئے بھی ہو سکتی ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر اپنی بندیوں کو بااختیار کے ساتھ ساتھ باوقار بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ لہذا پردے و حجاب کا حکم ربانی ہر مسلمان عورت پر فرض کیا گیا ہے۔ زیب و زینت کی نمائش سے پرہیز کئے بغیر وقار اور سنجیدگی کا اظہار نامکمل ہے اس لئے نہ صرف زیب و زینت کو چھپانے بلکہ زمین پر پاؤں مار کر آواز پیدا کرتے ہوئے چلنے‘ خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنے اور اکیلے سفر کرنے کی ممانعت بھی کر دی گئی۔ یہ تمام احکامات دراصل عورت کے تحفظ اور وقار کے حق میں ہی ہیں لیکن مشرقی معاشرے کی عورت نے جب یہ دیکھا کہ مردوں کے لئے جو احکام فرض کئے گئے تھے ان پر عمل درآمد کروانے والی کوئی قوت نافذہ‘ اسلامی حکومت یا اخلاقی قوت محرکہ کے معاشرے میں موجود نہیں ہے اور پردے‘ حجاب اور گھروں میں ٹِک کررہنے کے احکامات‘ شرم و حیا ایثار اور حدود و قیود کی پابندی کا مطالبہ صرف عورت ہی سے کیا جاتا ہے تو اس نے پردے و حجاب کے حکم کو اپنی عزت نفس پر حملہ متصورکیا اور یہ سمجھا کہ عورت کو کمزور کردار کی حامل سمجھتے ہوئے اس پر یہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں جبکہ مردوں کو یہ اسلامی معاشرہ کھلی چھوٹ دیتا ہے کہ وہ جو مرضی کرتے پھریں۔ اس احساس نا برابری نے عورت میں اسلامی و مشرقی اقدار سے بغاوت کے منفی رحجانات کو جنم دیا۔ ایسے میں جب ویمن ایمپاورمنٹ کا نظریہ ان پر پیش کیا گیا تو انہوں نے محسوس کیا کہ یہ نظریہ تو ان کے دل کی آواز ہے۔ لہٰذا ایمپاورمنٹ کے نام پر آزادی‘ صنفی مساوات یہاں تک کہ جنسی آزادی کے زہر کو بھی انہوں نے اپنے لئے تریاق سمجھا۔ کچھ ماہ قبل سڑکوں پر حوا کی کچھ بیٹیاں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کے سلوگن اٹھائے ہوئے نظر آئیں۔ کیا یہی وہ ’’ویمن ایمپاورمنٹ‘‘ ہے؟ معاشی خود انحصاری ایک سنجیدہ ذمہ داری ہے جس کو اٹھاتے ہوئے ایک خاتون اپنی اور اپنے زیر کفالت افراد کی مکلف بن جاتی ہے اور یہی نہیں بلکہ گھریلو اور پیشہ ورانہ امور کی دہری مشقت اٹھاتی ہے۔ جن ملکوں میں ویمن ایمپاورمنٹ کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے وہاں بھی خواتین مختلف مسائل کا شکار ہیں یہاں تک کہ اقوام متحدہ امریکہ میں بھی ورکنگ ویمن کی 43 فیصد تعداد کو صنفی امتیاز کی بنا پر مردوں سے کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ چین‘ جاپان جیسے صنعتی ملکوں میں تو ویمن ایمپاورمنٹ یا ایمپلائمنٹ اس وقت Punishment بن جاتی ہے جب حاملہ ورکنگ ویمن کو زچگی کی رخصتیں نہیں دی جاتی ہیں یا اتنی کم د ی جاتی ہیں جو زچگی کے بعد ان کی صحت کی بحالی کے لئے ناکافی ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں 60 فیصد آبادی دیہی طبقے پر مشتمل ہے وہاں بھی کھیتوں میں کام کرنے والی عورت کو زچگی‘ حمل اور رضاعت کے معاملات میں کوئی رعایت نہیں دی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی خواتین کی حالت زار یکساں ہے۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی خواتین اپنی محنت و دیانت کے بل پر ذریعہ معاش کو جاری رکھے ہوئے ہیں وہاں مالکان کو ان کے استحصال سے روکنے والے قوانین موجود نہیں ہیں۔ شاید اسی لئے خواتین کی اکثریت شوبز‘ اداکاری اور ماڈلنگ کے وہ شعبے اختیار کر رہی ہے جہاں مشقت کم گلیمر زیادہ اور معاوضہ بھی زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ اشتہار سازی کا شعبہ اب ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ حاصل کر چکا ہے لیکن کیا ذہنی اور جسمانی مشقت اٹھا کر روزی کمانے والی خاتون اور ماڈل و سٹار کہلانے والی خواتین دونوں ہی ورکنگ ویمن ہیں؟ اور کیا دونوں ہی کو ایمپاورمنٹ کی یکساں ضرورت ہے؟ حقوق انسانی کی عالمی تنظیم کو اس حوالے سے واضح پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور ویمن ایمپاورمنٹ کا نظریہ قبول کرنیوالے اسلامی ملکوں کو اپنی اقدار و روایات کے مطابق ’’مشرقی عورت بااختیار مگر باوقار‘‘ کے اصول کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس اصول کے تحت ان تمام شعبوں‘ اداروں‘ کمپنیوں اور ان میں کام کرنیوالی خواتین کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے جہاں عورت محض ایک شو پیس بن کر اپنی نسوانی انا‘ عزت نفس اور وقار کا سودا کرنے پر مجبور ہے۔ حکومتی سطح پر اس بارے میں قانون سازی کی جائے اور خواتین کی ترقی و بہبود کے ادارے ایسی آسامیاں پیدا کرنے کے لئے پالیسی بنائیں جن میں عورتوں کی فطری صلاحیتوں کا بھرپور استعمال ہو عورت ایک تخلیق کار ہے۔ ایک فطری معلمہ ہے۔ نظم و نسق چلانے کی بہترین صلاحیت قدرت کی طرف سے اسے ودیعت کی گئی ہے لہٰذا اچھے اداروں اور شعبوں میں انتظامیہ کے عہدوں پر خواتین کا کوٹہ مخصوص کیا جائے۔ فائن آرٹ کے شعبوں مثلاً ٹیکسٹائل‘ ڈیزائننگ سے متعلقہ اداروں میں خاتون ڈیزائنر کی آسامیاں زیادہ سے زیادہ پیدا کی جائیں۔ ہوم انڈسٹری کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ حجاب و پردے پر پابندی لگانے والی تمام شرائط ملازمت ختم کر دی جائیں۔ ایسا ہوناتبھی ممکن ہے جب تمام ہی خواتین اپنی عزت و وقار اور پردے کی محافظت کرنے والی بن جائیں اوروہ مالکان ادارہ جن کو اپنے ادارے کی بہتری کے لئے ایک دیانت دار‘ محنتی اور قابل عورت کی ضرورت ہو وہ بھی باپردہ خواتین کو ملازمت دینے پر مجبور ہو جائیں۔
خواتین خواہ گھریلو دائرہ کار تک محدود ہوں یا گھر کے مردوں کی مددگار بیوی‘ بیٹی‘ بہن کی حیثیت سے ملازمت پیشہ ہوں ہر جگہ ان کے جائز مقام و مرتبے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک عورت محض روپے پیسے کے بل پر اپنا کھویا ہوا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ عورت نے جب بھی دنیا میں کوئی مقام و مرتبہ حاصل کیا ہے مسلسل محنت‘ دیانت اور نسوانی وقار کے بل پر حاصل کیا ہے روزِ ازل سے عورت اور مرد ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ ایسی ویمن ایمپاورمنٹ جو عورتوں اور مردوں کو ایک دوسرے کا مدمقابل بنا دے کسی بھی معاشرے کے لئے مفید نہیں ہو سکتی اور نہ ہی خود خواتین کو جبر و استحصال سے نجات دلانے والی ثابت ہو سکتی ہے۔