منٹو کی ایک کہانی تھی کسی بھلے نام سے، اس میں ایک دولت مند شخص کی آپ بیتی بیان کی گئی جسے نیک کام کرنے کا خبط ہو گیا تھا۔ اسے یہ سمجھ نہیں آتا تھا کہ نیک کام کرے تو کرے کیا، شہر میں جاتا تو ہر دوسرا شخص بھکاری نظر آتا، سوچا لنگر خانہ کھولنے سے آخر کتنے پیٹ بھریں گے۔ لوگوں کے پاس بیٹھ کے ان کے مسائل سنے تو اسے معلوم ہوا کہ ہر شخص ہی دکھی ہے چاہے امیر ہو یا غریب ہو، وہ کس کس کے مسئلے حل کر سکتا ہے۔ آخر بہت سوچنے سمجھنے کے بعد اسے یہ طریقہ سمجھ میں آیا کہ دنیا میں پائے جانے والے سارے مسائل فالتو آبادی کی وجہ سے ہیں، آبادی کم ہو گی تو سارے سسٹم خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ پھر اسے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی مظلوم انسان حادثے میں مارا جائے تو وہ آخرت میں اچھے رتبے پاتا ہے۔ اس کے بعد وہ جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گراتا تھا، کبھی کوئی پرانی ترین عمارت لے کر اس میں غریب لوگوں کو بسا دیتا تھا اور جیسے ہی کوئی آدمی چھلکے سے پھسل کے گرتا اور مر جاتا یا وہ پرانی عمارت گرتی اور ملبے میں لوگ دب کے مر جاتے تو وہ اپنے تئیں بہت خوش ہوتا کہ یہ بے چارے حادثاتی موت مر بھی گئے اور میں نے انہیں دکھ درد سے بھی آزاد کر دیا۔ جو آدمی بچ جاتا، وہ اس کی نظر میں گناہگار ٹھہرتا۔ سمجھا جاتا کہ اس کے مقدر میں اعلیٰ رتبوں والی موت نہیں ہے۔
اب منٹو کے ا س افسانے کو پاکستان کے زاویے سے دیکھیں، پاکستان چیریٹی کرنے والے دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں مسکینوں اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، یہاں مخیر حضرات کی جانب سے ’’دسترخوان‘‘ کھولے جا رہے ہیں جہاں لمبی لمبی قطاریں اس بات کی غمازی ہیں کہ یہاں ہر شخص فقیر بننا چاہتا ہے ۔ جبکہ ہمارے ووکیشنل ادارے جہاں تربیت دی جانی ہوتی ہے اور ایک عام شخص کو معاشرے کا اچھا رکن بنانے کے لیے فعال بنایا جاتا ہے وہ ادارے محض فیشن بن کر رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سسٹم ہے‘ ہم لوگ چیریٹی کرتے ہیں لیکن یہ چیریٹی آرگنائزڈ نہیں ہوتی چنانچہ ملک سے غربت اور مسکینی ختم نہیں ہو رہی‘ ہمیں اس کے لیے دو سطح پر کام کرنا ہو گا‘ پہلی سطح فوری امداد ہے‘ ہمیں مسکینوں کے لیے کھانے پینے‘ سودا سلف‘ ادویات اور کپڑوں کا فوری بندوبست کرنا چاہیے‘ ہم اس سلسلے میں یورپ کے ماڈل کی مدد لے سکتے ہیں۔
بھائی دنیا بھر میں غربت کا خاتمہ معیشت سے جڑا ہے۔ مضبوط معیشت آپ سے اچھا انفراسٹرکچر مانگتی ہے، کاروبار کرنے کا سازگار ماحول مانگتی ہے، امن و امان مانگتی ہے، ترقی کا ٹرکل ڈائون ایفیکٹ مانگتی ہے، زرعی معاملات کی بہتری مانگتی ہے، بجلی کی فراہمی، تعلیم کا معیار، ڈگری دینے والے اداروں کی وقعت، چھتیس چیزیں اور وہ ہیں جو یہاں غربت کے خاتمے پر گنوائی جا سکتی ہیں لیکن چند روپے بانٹ دینے سے یا گمبٹ اور سکھر میں دو ہسپتال بنا دینے سے جو لیڈر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ غربت بس ایویں ختم ہو جائے گی اس پہ مزید بات کس طرح کی جائے؟
میرے سامنے اس وقت دو خبریں پڑی ہیں پہلی اقوام متحدہ کی وہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں قریباََ 9کروڑ افراد غربت کا شکار ہیں۔ جبکہ دوسری خبر یہ ہے کہ پنجاب کے ایک شہر میں ایک شادی ہوئی جس میں دولہا اور باراتیوں پر نوٹ نہیں ڈالر نچھاور کیے گئے۔ بارات کے مہمانوں کو لانے لے جانے کے لیے دبئی سے خصوصی گاڑیاں منگوائی گئیں۔ معروف فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ محتاط اندازے کے مطابق اس شادی پر 2 ارب روپے سے زائد کے اخراجات کیے گئے۔ اب بندہ سٹپٹائے نہ تو کیا کرے! بقول شاعر
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائیگانی سے ہوا
تو بات ہو رہی تھی پاکستان میں 9کروڑ غریبوں کی، اس نا انصافی کی وجہ سے دنیا کے 188 ملکوں میں سے پاکستان کا انسانی ترقی کے حوالے سے 147 واں نمبر ہے، پاکستان میں اقتصادی ترقی صرف امیر لوگوں کے گرد گھومتی رہی ہے، سرمایہ کاری کے بہتر مواقع بھی مال دار طبقہ کے لئے ہی ہیں، پاکستان میں بے روز گاری کی شرح 48 فیصد کے قریب ہے، سب سے بڑی بات یہ کہ پاکستان کی یہ غربت قدرتی نہیں۔ نہ ہی آفاتِ آسمانی اور حوادث اس کا اصل سبب ہیں۔ 1964ء میں بھی پاکستان کے ایک تہائی لوگ غربت اور افلاس کا شکار تھے۔ آج بھی یہ تناسب تقریباً اتنا ہی ہے۔یہ بات تو ماننا پڑے گی کہ یہاں غربت کے اصل اسباب سیاسی رہے ہیں۔ سابق حکمرانوں کی غلط پالیسیاں اس کی اصل وجہ ہیں۔ ہمارے بالادست طبقے نے جدت پسندی اور ترقی کا فرق نظرانداز کردیا ہے۔ یہاں کا نظام مکڑی کا ایک ایسا جالا رہا ہے جس میں حشرات پھنستے ہیں مگر بڑے جانور اسے پھاڑ کر نکل جاتے رہے ہیں، یہ ہے اس ملک کا قانون جس میں بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا رہی ہے۔ کوئی بھی تو یہاں غریب کی نہیں سوچتا غریب بی اے، بی ایڈ کرکے چاول چھولوں کی ریڑھیاں لگا کر کھڑے ہیں اور جنہیں اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا وہ انکے اوپر حکمرانی کررہے ہیں۔ لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے کبھی روٹی، کپڑا اور مکان کا جھانسہ دیکر غلام بنالیا جاتا ہے تو کبھی جھوٹے وعدے کرکے۔ اِس ملک میں اگر کوئی اچھا کام کرلے تو وہ اچھا کام اسکی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔
پاکستان میں معاشی ترقی کی راہ میں چند روکاوٹیں حائل ہیں مثلاََ مناسب زرعی ترقی کے بغیر صنعتی ترقی کی خواہش۔چھوٹی صنعتوں کو نظر انداز کر کے بڑی صنعتوں کی ترقی کو توجیح دینا۔ شہری اور صنعتی ترقی میں عدم مطابقت۔ زرعی و صنعتی پیداوار کی نسبت طلب کا زیادہ ہونا۔ روزگار کے مواقع کی نسبت آبادی میں اضافہ۔ حکومت ان عوامل پر توجہ دے کر غربت کا خاتمہ ممکن بنا سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر جاگیردارانہ سماجی نظام ‘ ناخواندگی اور زراعت پر حد سے زیادہ انحصار بھی غربت کی بنیادی وجہ خیال کی جاتی ہے۔ جاگیرداری نظام کی اصلاح اور ناخواندگی کے خاتمہ کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں لیکن زراعت پر انحصار کو ختم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت ہماری افرادی قوت کے پچاس فیصد حصے کو روزگار فراہم کرتی ہے اور براہ راست برآمدات اور زرعی مصنوعات کے ذریعے زرمبادلہ کمانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ غربت کے خلاف جنگ میں غیر زرعی شعبوں میں روزگار کے مواقع فراہم کرنا اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ زرعی شعبے میں نئی ٹیکنالوجی اور مہارتوں کو متعارف کروایا جائے تاکہ پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ہو اور پانی ذخیرہ کرنے کے لئے زیادہ ڈیم تعمیر کئے جائیں تاکہ خشک سالی اور معاشی بدحالی سے بچا جاسکے۔لیکن خیرات غربت کا حل نہیں ہے‘ سوائے اس کے کہ غربت کے انتہائی معاملات کو فوری سہارا فراہم کیا جائے۔ موجودہ برسوں میں ہونے والا اضافہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ضیاء حکومت کے دوران زکوٰۃ کی کٹوتی جوکہ لازمی قرار دی گئی تھی‘ وہ بھی غربت کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہی۔۔۔ اسی طرح عام آدمی ہر دور میں غریب سے غریب تر ہوتا چلا گیا، اس وقت بھی پاکستان کی 60 فیصد آبادی غریب ہے‘ ان میں سے نصف انتہائی غربت کا شکار ہے‘ یہ لوگ کھانے پینے‘ دواء دارو اور کپڑوں جوتوں تک سے محروم ہیں‘ یہ لوگ صرف غریب نہیں ہیں یہ مسکین بھی ہیں‘ غربت اور مسکینی میں فرق ہوتا ہے‘ مسکین گزارہ نہیں کر سکتا جب کہ غریب رو دھو کر گزارہ کر لیتے ہیں‘ ہم بحیثیت معاشرہ ان مسکینوں کے ذمے دار ہیں اور ہم میں سے ہر صاحب استطاعت شخص کسی نہ کسی حد تک ان مسکینوں اور غریبوں کی مدد بھی کرتا ہے۔
الغرض مدد ایسے پیرائے میں کی جائے کہ ان کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرائے جائیں تاکہ یہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں‘ شہر کے مزدوروں‘ ترکھانوں‘ لوہاروں اور مستریوں کو دس‘ دس پندرہ پندرہ دنوں کی جدید ٹریننگ دلائی جائے اور یہ فیصلہ کیا جائے شہر یا قصبے کی تمام تعمیرات انھیں لوگوں سے کرائی جائے گی تاہم شہر بھر کے لیے ان کے ریٹس ضرور طے کر دیے جائیں ‘ شہر اور قصبے کے اندر بگھی یا جدید طرز کے تانگے چلائے جائیں‘ اس سے پلوشن بھی کنٹرول ہو گا، لندن میں آج بھی بگھیاں وغیرہ استعمال کرکے ایندھن کی بچت کی جا تی ہے۔ ہم بھی ان ممالک کو رول ماڈل بنا کر اور صفائی ستھرائی کو مدنظر رکھ کر ایسے اقدام اُٹھا کر یقینی غربت کا خاتمہ کر سکتے ہیں!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024