محبت امن ہے اور امن کا ہے نام پاکستان
بابا کرمو سے ایک دلچسپ ملاقات ہوئی بتایا دو دوستوں نے شوق کی خاطر دو گھوڑے خرید ے ۔ شام ہوئی تو ایک نے کہا یار ان گھوڑوں کے دو کان ہیں ،چار ٹانگیں ہیں ،دم ہے مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ کون سا گھوڑا میرا ہے ؟اس نے کہا یہ کون سا مشکل کام ہے ۔ میں اپنے گھوڑے کا ایک کان کاٹ دیتا ہوں ۔پھر اس نے ایسا ہی کیا ۔ کان کاٹنے کے بعد کہا نقص والا گھوڑا میرا دوسرا تیرا ۔ صبح جب اٹھے تو دونوں گھوڑوں کے ایک ایک کان کٹے ہوئے تھے ۔ یہ دیکھ کر دونوں دوست پریشان ہوگئے ۔ ایک نے کہا میں اپنے گھوڑے کا دوسرا کان بھی کاٹ دیتا ہوں ۔ اس نے پھر ایسا ہی کیا ۔ کہا جس گھوڑے کا ایک کان ہے وہ تمہارا دوسرا میرا لیکن رات گزری صبح ہوئی تو دونوں کے کان نہیں تھے ۔ ایک نے کہا اب میں کیسے پہچان کر سکوں گا کہ کون سا گھوڑا میرا ہے ۔دوسرے نے کہاکوئی بات نہیں۔ میں اپنے گھوڑے کی ایک ٹانگ کا ٹ دیتا ہوں ۔ تمہارا گھوڑا چار ٹانگوں والا اور میرا گھوڑا تین ٹانگوں والا ۔ پھر ایسا ہی کیا گیا ۔ جب دوسرے روز صبح اٹھے تو دونوں کی ایک ایک ٹانگ غائب تھی ۔ لہذا پھر یہ پہچان کرنا مشکل ہوگیا کہ کون سا گھوڑ کس کا ہے ؟ دوسرے دوست نے اپنے گھوڑے کی ایک اور ٹانگ کاٹ دی ۔ کہا اب تمہارا گھوڑا تین ٹانگوں والا میرا دو ٹانگوں والا۔ جب صبح اٹھے تو دونوں کی دو دو ٹانگیں غائب تھیں ۔ پھر ایک نے کہا میں اپنے گھوڑے کی تیسری ٹانگ کاٹ دیتا ہوں ۔ پھر اس نے ایسا ہی کیا ۔کہا دو ٹانگوں والا تیرا اور ایک ٹانگ والا میرا ۔ جب صبح اٹھے تو دیکھا دونوں گھوڑوں کی تین تین ٹانگیں غائب تھیں ۔ کہا کوئی بات نہیں ۔میں اب اپنے گھوڑے کی آخری ٹانگ بھی کاٹ دیتا ہوں ۔ بغیر ٹانگوں والا میرا اور ایک ٹانگ والا تمہارا ۔ جب دونوں صبح اٹھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ دونوں کی تمام ٹانگیں غائب تھیں ۔ کہا یار اب ہم کیا کریں ۔ کہا میں اپنے گھوڑے کی دم کا ٹ دیتا ہوں ۔ بغیر دم والا گھوڑا میرا اور دم والا تیرا ۔ صبح جب اٹھے تو دونوں کی دم غائب تھیں۔اب سر جوڑ کر بیٹھے کہ اب کیا کیا جائے کہ ہم اپنے گھوڑے کی پہچان کرسکیں ۔ ایک دوست بولا یار یہ تو بتاﺅ دونوں گھوڑوں کے رنگ کیا ہیں کہا ایک سفید ہے اور دوسرے کا رنگ کالا ۔ کہا ٹھیک ہے ۔ میرا گھوڑا سفید رنگ کا اور تمہارا گھوڑا کالے رنگ کا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ۔ ایسا کرنے پرشرمندہ بھی ہوئے اور کہا کاش ہم رنگت پر رہتے تو گھوڑے اذیت سے بچ جاتے اور زندہ بھی رہتے ۔ بابا کرمو نے کہا، لگتا ہے ہم ایسا ہی سلوک اس ملک کے ساتھ کر تے آ رہے ہیں ۔کبھی اس کی پہچان کرانے کےلئے جمہوریت کی ٹانگیں کاٹ دیتے ہیں اور غیر جمہوری قوتوں کو لے آتے ہیں ۔ مطلب نکل گیا تو اسے فضا میں تحلیل کر دیتے ہیں ۔کبھی جمہوری حکمران کو پھانسی دے دیتے ہیں ۔کبھی بزنس مین کو سیاستدان بنا دیتے ہیں پھر اسے اقتدار میں لے آتے ہیں ۔ ڈکٹیٹر حکمران کو گن پوائنٹ سے فارغ کرتا ہے، جیل میں ڈالتا ہے پھر اسے ملک بدر کر دیتا ہے ۔ ڈکٹیٹر لمبا عرصہ گزارتا ہے ۔ جب وہ اقتدار کی کرسی چھوڑتا نہیں ، پھر اس کے اپنے ساتھی اسے راستے سے ہٹا نے کےلئے مومنت چلاتے ہیں ۔ ایک کرپٹ کو ہیرو بنا دیتے ہیں ۔پھر لنگڑی لولی جمہوریت لے آتے ہیں ،پھر الزامات لگا کرانہیں بھی گھر بھیج دیتے ہیں۔ کبھی آئین کے آرٹیکل 58-2B کا سہارا لیا جاتا ہے پھر اسے بد نام زمانہ ہو جانے کی وجہ سے اسے آئین سے نکال باہر کر دیتے ہیں ۔ اس کی جگہ 62/63 کو لے آتے ہیں ۔اس کا ستعمال کرتے ہوئے حکمران کو نہ صرف گھر بھیج دیا جاتا ہے بلکہ سیاست سے ان کا رول ختم کر دیا جاتا ہے ۔کوئی زمانہ تھا جب کبھی سیاست دانوں کی نرسری کالجوں یو نیورسٹیوں میں لگائی جاتی تھیں ۔جہاں سے طالب علم لیڈر بن کر نکلتے تھے مگر اب یہ نرسریاں شفٹ ہو کر مدرسوں میں لے آئے ہیں ۔ ان سے اب حکو متیں بدلنے کا کام لیا جاتا ہے ۔ انہیں دھرنوں میں بٹھایا جاتا ہے ۔ کبھی مرضی کے فیصلوں کے خلاف فتوے دئے جاتے ہیں ۔ کبھی ادارے کے سربراہ کو ہٹانے کی اپیل کی جاتی ہے ۔ کبھی اپنی مرضی کے آئین اور قانون کے مطابق چلا نے کی بات کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ایسے ہی لگتا ہے جیسے دو دوستوں نے اپنے گھوڑے کی پہچان کےلئے کبھی کان کاٹے ، کبھی ٹانگیں اور آخر میں دم بھی کا ٹ دی جاتی ہے ۔بابا کرمو نے کہا اگر انہیں پہلے ہی عقل آ جاتی تو بچارے گھوڑے اذیت سے نہ مرتے جب کہ ان گھوڑ ں کی شناخت کےلئے ان کے اپنے رنگ ہی کافی تھے ۔ ہمیں بھی اپنے ملک کی شنا خت کے لئے کوئی نئے تجربات کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے ۔نام سے پتہ چلتا ہے یہ ملک اسلا می بھی ہے اور جمہوری بھی اگر اس میں اسلام نہیں ہے ،جمہوریت نہیں ہے ۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں کوئی قانون نہیں ہے اگر قانون ہوتا تو چھیڑ خانی نہ کوئی کرتا ۔اسے اسلامی او ر جمہوری ملک رہنے دیتا ۔ یہاں آئین نہیں ، سزائیں نہیں ، ڈر نہیں خوف نہیں ۔ سوچنا ہے تو یہ سوچیں کہ یہ غیر جمہوری اور غیر اسلامی ملک کیسے کوئی بنا دیتا ہے ۔ ہم اسلامی ، جمہوری ملک کے با وجود اسلا می ملک بھی نہیں اور جمہوری ملک بھی نہیں یہاں رشوت کرپشن کا بول بالا ہے ۔ ہر کام میں دو نمبری ۔ملاوٹ جھوٹ کا بازار گرم ۔ کسی کو پیغام دیتے ہیں تو گالیوں سے ،سمجھاتے ہیں ڈنڈوں سے ۔ ایسے کا موں سے اسلام تو منع کرتا ہے۔پھر ایسا کیوں ہے ؟ ہم اسلام کی خاطر مر مٹنے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر سنت نبی پر عمل کر نے کو تیار نہیں ہوتے ۔ آپ ﷺ کا فرما ن مبارک ہے کہ دشمن سے لڑائی کے دوران عورتوں ِبچوں بو ڑھوں کے ساتھ ساتھ درختوں ، فصلوں کو بھی نقصان نہ پہنچا یا جائے،ان کا خیال رکھا جائے۔ اس فرمان عالی شان کے بعد بھی اگر کوئی روڈ بلاک کر تا ہے ، گا ڑیاں جلا تا ہے ،بچوں کو اسکول جانے سے ، مریضوں کو اسپتال جانے ، روزگار پر جانے والوں کو روکتا ہے تو ایسا شخص کیسے رسول خدا کا پیارا ہو سکتا ہے ۔ دعا کریں ا ﷲ کریم ہم سب کو اسلام پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔اگر کوئی کوتاہیاں ہو چکی ہیں تو معاف فرما ئے آمین ۔ آئیں اس ملک کو صیحح معنوں میں اسلامی اور جمہوری ملک بنائیں ۔ اچھے اچھے کام کریں ، ملک کا روشن نام کریں ۔ قیوم ساقی کے دعائیہ شعر کے ساتھ اجازت
سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے
جب تک ہے یہ دنیا باقی ہم دیکھیں آزاد تجھے