عسکری قیادت کا قانون کی حکمرانی کیلئے ریاستی اداروں کی حمایت جاری رکھنے کا عزم اور چیف جسٹس کے سخت ریمارکس
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت جی ایچ کیو میں منعقد ہونیوالی کورکمانڈرز کانفرنس میں گزشتہ روز جیوسٹرٹیجک اور ملکی سلامتی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ریاستی رٹ اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے تمام ریاستی اداروں کی حمایت جاری رکھی جائیگی۔ کانفرنس میں باور کرایا گیا کہ قانون پر عملدرآمد سے ہی امن‘ استحکام اور ملک کی خوشحالی ہے۔ پائیدار امن کیلئے پاک فوج کی کوششیں جاری رکھنے اور علاقائی امن کیلئے اقدامات کی حمایت کے عزم کا بھی کانفرنس میں اعادہ کیا گیا اور کہا گیا کہ ریاستی رٹ برقرار رکھی جائیگی۔ کانفرنس میں ملک میں جاری اپریشنز کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اسی طرح پاک افغان سرحد پر آہنی باڑ اور مشرقی سرحد کی صورتحال پر بھی غور کیا گیا اور بھارتی سیزفائر کی خلاف ورزیوں اور شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا۔ اسی طرح ملک میں پائیدار امن لانے کیلئے پاک فوج کی کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کورکمانڈرز کانفرنس میں بھارتی سیز فائر کی خلاف ورزیوں سمیت مشرقی سرحد کی صورتحال پر غور ہوا اور علاقائی امن کیلئے تمام اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے ملک کے اندر پائیدار امن کے قیام کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
اس وقت ہمیں اپنی جغرافیائی سرحدوں پر ملک کی سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ اور ملک کے اندر سیاسی اور اقتصادی استحکام کے معاملہ میں جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے عہدہ برأ ہونے کی حکومت اور افواج پاکستان سمیت تمام ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے جنہوں نے اپنی یہ ذمہ داری بہرصورت آئین میں ودیعت کردہ اپنے اختیارات کے مطابق ادا کرنی ہے۔ اگر تمام ریاستی ادارے باہم یکسو ہو کر ریاست و مملکت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کر رہے ہوں تو کسی کو نہ ملک کے باہر سے ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت ہو سکتی ہے نہ ملک کے اندر کسی کیلئے قانون اور آئین شکنی کے راستے پر چلنا ممکن ہو سکتا ہے۔ ہمارے مکار دشمن بھارت کو جو پہلے ہی شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہے‘ ہمارے کسی اندرونی خلفشار اور سیاسی و اقتصادی عدم استحکام کے باعث پیدا ہونیوالی غیریقینی کی فضا سے ہی ہماری سلامتی کیخلاف سازشوں کے جال تیار کرنے اور پھیلانے کا نادر موقع ملتا ہے۔ اس تناظر میں ہمیں ایک سفاک اور مکار دشمن کا سامنا ہے تو اسکی سازشوں کا توڑ کرنے اور ناکام بنانے کیلئے ملک میں سیاسی اور اقتصادی استحکام ازحد ضروری ہے جس کیلئے بہرصورت ریاستی اداروں اور ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی نے ہی فرائض سرانجام دینے ہیں۔
ہمیں بطور ادارہ افواج پاکستان پر اس لئے فخر ہے کہ وہ پوری مشاقی کے ساتھ دفاع وطن کی ذمہ داریاں بھی خوش اسلوبی سے نبھاتی ہیں اور اس وطن عزیز کیخلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے یا اسکا سوچنے والے دشمن کے دانت کھٹے کرکے اس کا ہر سازشی منصوبہ خاک میں ملاتی ہیں اور اسی طرح عساکر پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ملک کی سرزمین کو دہشت گردی کے ناسور سے پاک کرنے کیلئے بھی جان جوکھوں میں ڈال کر اپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں پاک فوج کے جوانوں اور افسران نے بے مثال قربانیاں دیکر ملک کے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کیا ہے۔ عساکر پاکستان کے اس جاں گسل فریضے کی ادائیگی کے باعث ہی آج ملک میں امن و آشتی کی فضا مستقل بنیادوں پر قائم ہوتی نظر آرہی ہے اور دہشت گرد اپنے زخم چاٹتے ہوئے ملک سے فرار ہوچکے ہیں یا کونوں کھدروں میں چھپ کر اپنی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
پاک فوج کا یہی وہ کردار اور کارکردگی ہے جس پر ملک کے ہر شہری اور پوری قوم کو ناز ہے جبکہ ملک کی عسکری قیادت کی جانب سے ملک میں قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے کردار ادا کرنے کا عزم بھی اسی تناظر میں کیا جارہا ہے کہ قانون کی حکمرانی پر ہی پرامن معاشرے کی بنیاد رکھی اور استوار کی جاسکتی ہے۔ اگر ملک میں لاقانونیت کا دور دورہ ہو‘ جیسا کہ سابقہ حکومت کے حوالے سے خراب گورننس اور حکمران طبقات کے ماورائے قانون اقدامات کو انکی اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور اس گورننس کیخلاف ریاستی اداروں سے کردار ادا کرنے کا تقاضا کیا جاتا رہا ہے تو اب بھی قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے ریاستی اداروں کے کردار کی ضرورت رہے گی۔ بے شک پی ٹی آئی اور اسکی قیادت نے سابق حکمرانوں کی بری حکمرانی اور انکی من مانیوں کیخلاف قوم میں شعور بیدار کرکے آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری والے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا اور اس نعرے کی بنیاد پر ہی قوم نے انہیں جولائی 2018ء کے انتخابات میں سرخرو کرکے اقتدار کا مینڈیٹ دیا جبکہ پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پارٹی ایجنڈے‘ منشور اور عوام کے ساتھ سسٹم کی تبدیلی کے حوالے سے کئے گئے وعدوں کی بنیاد پر گڈگورننس کے اقدامات اٹھائے اور اپنے سمیت تمام حکمران طبقات کو قانون و آئین کے سامنے جوابدہ بنایا۔ انہوں نے اپنی حکومت کے پہلے سو دنوں کا ایجنڈا بھی قانون کی حکمرانی کے ماتحت ہی تشکیل دیا جس پر حکومت خوش اسلوبی کے ساتھ گامزن بھی ہے اور عوام بھی اس حوالے سے مطمئن نظر آتے ہیں کہ سابقہ ادوار حکومت میں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے قومی دولت و وسائل کی لوٹ مار کرنے اور اپنا کالادھن ملک سے باہر منتقل کرکے ملکی اور قومی ترقی کے راستے مسدود کرنیوالے سابق حکمران طبقات اور دیگر مکاتب زندگی کے لوگ آج قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کی زد میں ہیں جن سے لوٹا گیا پیسہ ملک واپس لانے کیلئے حکومت پر عزم ہے تو احتساب کے اس عمل کی بنیاد پر موجودہ حکمران طبقات میں سے بھی کسی کو اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور قومی وسائل کی ماضی جیسی لوٹ مار کی جرأت نہیں ہوگی۔ اس طرح ملک میں فی الواقع قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا راج ہوگا تو جہاں سیاسی استحکام کی بنیاد مضبوط ہوگی وہیں ملک اقتصادی استحکام کی منزل سے بھی ہمکنار ہو جائیگا۔
یہی آج چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار اور عدالت عظمیٰ و عدالت عالیہ کے دیگر فاضل ججوں کا تجسس ہے جس کیلئے وہ اپنے ازخود اختیارات کو بروئے کار لا کر ادارہ جاتی بے ضابطگیوں کا نوٹس لیتے اور اصلاح احوال کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ گزشتہ روز عدالت عظمیٰ کے فل بنچ نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سی ڈی اے کے بے ضابطگی کے بعض معاملات کا نوٹس لیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ اسکے پاس صلاحیت ہے‘ نہ اہلیت اور نہ ہی کوئی منصوبہ بندی‘ کیا اس طرح نیا پاکستان بن رہا ہے؟ فاضل عدالت عظمیٰ نے بنی گالہ میں چارجز ادا نہ کرنیوالوں کی تعمیرات گرانے کا اس لئے حکم دیا کہ فاضل عدالت کے بار بار کے احکام کے باوجود بنی گالہ کے متعلقہ افراد نے اپنی جائیدادوں کو ریگولرائز کرانے کیلئے جرمانوں کی رقم ادا نہیں کی۔ بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان کی اپنی اقامت گاہ اسی زمرے میں آتی ہے جسے عدالت عظمیٰ کے احکام کی بنیاد پر اب تک ریگولرائز نہیں کرایا گیا۔ یہ کسی کی انا کا نہیں بلکہ آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا معاملہ ہے جس کیلئے حکمران طبقات کو تو بطور خاص اپنی ذات کو مثال بنانا چاہیے تاکہ ملک کے دیگر شہری بھی انکی تقلید کرتے ہوئے خود کو آئین و قانون کا پابند بنائیں۔
اگر عدلیہ یا کوئی دوسرا ریاستی ادارہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا تقاضا کرتا اور اس کیلئے اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داریاں بروئے کار لاتا ہے تو اس کا مقصد کسی دوسرے ریاستی ادارے کو نیچا دکھانا ہرگز نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز اسی تناظر میں باور کرایا کہ ریاست کے تین ستون ٹکراتے ہیں تو نقصان ملک اور قوم کا ہوتا ہے اس لئے آج اگرملک کی عسکری قیادت قانون کی حکمرانی کیلئے ریاستی اداروں کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کررہی ہے اور ملک کے منصف اعلیٰ کا بھی ادارہ جاتی بے ضابطگیوں کا نوٹس لینے کے حوالے سے یہی مطمحٔ نظر ہے تو یہ درحقیقت ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے انکی جانب سے ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی کی معاونت ہے جس کی بنیاد پر ایگزیکٹو اتھارٹی کو متعلقہ حکومتی اداروں اور محکموں میں موجود خرابیوں اور بے ضابطگیوں کے تدارک کیلئے فوری اور مؤثر اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ اگر ریاست کے تینوں آئینی ستون قانون و آئین کے مطابق امور حکومت و مملکت چلانے میں ہم آہنگ ہونگے تو اس وطن عزیز کو ریاست مدینہ اور نئے پاکستان کے قالب میں ڈھالا جا سکے گا۔ ہمیں یہ حقیقت بہرصورت پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ملک جتنا اندرونی طور پر مضبوط و مستحکم اور امن و آشتی کا گہوارہ بنے گا اتنا ہی مکار دشمن کی اعلانیہ اور خفیہ سازشوں کے باوصف اسکی سلامتی محفوظ ہوگی۔