حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دباؤ پر گھٹنے ٹیک دئیے۔ بجلی پر ایک سو چھپالیس ارب کی سبسڈی واپس لینے کا فیصلہ کر لیا، تقسیم کار کمپنیوں کو یکساں ٹیرف بنانے کی ہدایت جاری کر دی گئی۔ وزیر خزانہ اسد عمرآئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کیلئے اس وقت گئے‘ جب ادھر ادھر ہاتھ مارنے کے باوجود بیل آؤٹ پیکیج کے حصول میں کوئی کوشش بارآور ہوتی نظر نہیں آرہی تھی۔ آئی ایم ایف نے مذاکرات کیلئے پاکستان سے روانہ ہونیوالے وفد کو اپنی کڑی شرائط سے آگاہ کر دیا تھا۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق پاکستان کو شرائط سے اتفاق کرنا پڑا۔ خوش قسمتی سے سعودی عرب اور چین کی طرف سے تعاون کے بعد حکومت نے معاشی بحران سے نکل آنے کا دو ٹوک اعلان کر دیا۔ اس موقع پر وزیر خزانہ نے نے کہا کہ اب شاید آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑے۔ اگر جانا بھی پڑا تو ہم مذاکرات کیلئے بہتر پوزیشن میں ہونگے۔ اس کا مطلب یہی لیا گیا کہ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط میں پہلے جیسی ڈکٹیشن نہیں ہو گی مگر اب حکومت آئی ایم ایف کی سخت شرائط کو ماننے پر آمادہ نظر آتی ہے جس کی رو سے صارفین کو دی گئی 146 ارب روپے کی سبسڈی واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سے ہر کیٹیگری کے صارفین پر بوجھ پڑیگا۔ نئے ٹیرف میں 50 یونٹ تک بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کیلئے 2 روپے فی یونٹ، 100 یونٹ والے صارفین کیلئے 5 روپے 79 پیسے فی یونٹ، 200 یونٹ والے صارفین کیلئے 8 روپے 11 پیسے فی یونٹ، 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئے 10 روپے 20 پیسے اور 700 یونٹ تک والے صارفین کیلئے ٹیرف 17 روپے 60 پیسے، 700 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنیوالے صارفین کیلئے بجلی کی قیمت 20 روپے 70 پیسے مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اتنا اضافہ مرے کر مارے شاہ مدار کے مترادف ہو گا جو صارفین کے حکومت کیخلاف اشتعال کیلئے کافی ہے۔ حکومت عوام کو زندہ درگور کرنے کی پالیسیوں سے اجتناب کرتے ہوئے قرض کیلئے آئی ایم ایف کے بجائے دوست ممالک سے ضروریات پوری کرنے کی بات کرے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024