جمعرات‘ 6؍ ربیع الاوّل 1440 ھ ‘ 15 ؍ نومبر2018ء
پنجاب میں بیگم ڈپلومیسی۔ گورنر اور وزیراعلیٰ کی بیگمات میں ملاقات
معاملات سدھارنے کے بہت سے طریقے دنیا میں رائج ہیں۔ انہیں خفیہ سفارتکاری کہہ لیں یا شٹل ڈپلومیسی، اس کی بدولت بڑے بڑے تنازعات حل ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ مگر اب جو پاکستانی سیاست میں تنازعات کے حل کے لئے ’’بیگم ڈپلومیسی‘‘ ایجاد ہوئی ہے وہ تو اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ڈپلومیسی شاید ہی کہیں اس سے پہلے استعمال ہوئی ہو۔ دنیا میں بڑی بڑی نامور خواتین گزری ہیں حکمرانی سفارت کاری اور جاسوسی تک میں انہوں نے نام کمایا مگر ثالثی کے میدان میں شاید ہی کسی خاتون نے قدم رکھا ہو۔ کیوں کہ جس تنازع میں یا معاملے میں خواتین درمیان میں پڑ جائیں وہاں سے پھر خیر کی خبر نہیں ملتی۔ مگر ہمارے ہاں گزشتہ دنوں جس طرح پنجاب کے دو بڑوں میں اختلافات کی خبروں کا طومار باندھا گیا۔ اب اس کا زور توڑنے کے لئے دونوں بڑوں کی بیگمات نے کمرکس لی اور ان باتوں کا توڑ نکالنے کی ٹھان لی۔
چنانچہ اب بیگم چودھری سرور اور بیگم عثمان بزدارنے گزشتہ روز نہایت خوشگوار ماحول میں ملاقات کی اس ملاقات میں بیگم پرویز الٰہی بیگم جہانگیر ترین اور بیگم طارق چیمہ بھی موجود تھیں۔ ملاقات میں چاکلیٹ کھلا کر ایک دوسرے کا منہ میٹھا بھی کیا گیا۔ تصویر میں تمام بیگمات جو وہاں موجود ہیں‘ اطمینان سے ہنستی مسکراتی نظر آ رہی ہیں۔ اس خوشگوار تصویر سے معلوم ہوتا ہے برف پگھل رہی ہے حالات معمول پر آ رہے ہیں۔ اور یوں یہ پنجاب کی 5 بااثر خواتین کا ملاپ امید ہے سیاسی رنجشوں کو مٹانے میں معاون ثابت ہوگا۔
٭٭٭٭٭
الزامات بے بنیاد ہیں انصاف ہوتا نظر آیا تو جلد واپس آئوں گا: اسحاق ڈار
پہلی بات تو ڈار صاحب خود بھی جانتے ہوں گے کہ ’’سانچ کو آنچ نہیں‘‘ سچ ہرجگہ، ہر وقت سچ ہی رہتاہے۔ ناانصافی کا دور دورہ ہو یا ہر قدم پر انصاف مل رہا ہو۔ اس لئے اگر ان پر واقعی الزامات بے بنیاد ہیں تو بیماری کے نام پر سابق مرد آہن پرویز مشرف کی طرح یہ وطن سے دوری کیوں۔ ان گلیوں سے دوری چہ معنیٰ دارد جن کے لئے فیض تمام ترجبر اور پابندیوں کے باوجود …؎
نثارمیں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراٹھا کرچلے
لاکھوں محب وطن پاکستانی مسائل کا شکار ہیں جبر و ستم کے ہاتھوںتنگ ہیں مگر وہ تو ملک چھوڑ کر کوسوں دور پردیس میں جا کر بسرم نہیں کرتے وطن کی مٹی سے ہی جڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پرویز مشرف اور اسحاق ڈار ہی وکھری مٹی کے بنے ہیں کہ الزامات کے خوف سے ہی بیرون ملک بھاگ گئے۔ ابھی تو الزامات ہی ہیں جو ان دونوںکے بقول بے بنیاد ہیں توڈر کیسا۔ آئیں بہادروں کی طرح مقدمات کا سامنا کریں جھوٹ کو بے نقاب کریں۔
اب ان دونوں کی حالت یہ ہے کہ جاری کردہ تصویروں میں سٹریچر یا بستر پر دراز نظر آتے ہیں جبکہ حقیقی دنیا میں بھاگتے دوڑتے چہل قدمی کرتے ہنستے مسکراتے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس سے تو لامحالہ عوام اور عدالتوں کو شک ہو گا ہی۔
٭٭٭٭٭
خیبرپی کے تعلیمی اداروں میں نسوار اورسگریٹ کے استعمال پرپابندی
اب سگریٹ کی حد تک بات زیادہ خطرناک نہیںکیونکہ ا س بدبخت سگریٹ کا معاملہ سارے پاکستان میں یکساں ہے۔ اس پرپابندی کی ساری دنیامیں مہم جاری ہے۔ مگریہ جو نسوار سے ان دونوں صوبوں کے عوام کو نہایت گہری جذباتی وابستگی ہے۔ وہ اس کی خاطر دوستی چھوڑ سکتے ہیں۔ کسی بھی پارٹی سے تعلق توڑ سکتے ہیں مگر یہ ظالم نسوار جو پہلے سبز پری کہلاتی تھی اب رنگ برنگی نسوار کے برانڈ آنے کے بعد نسواری اور کالی پری بھی بن چکی ہے۔ اس سے جان چھڑانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ جیب میں رومال اور نسوار کی ڈبی تو خیبر پی کے اور بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں کی پہچان ہے۔ اب تو یہ پڑیا میں بھی فروخت ہوتی ہے پلاسٹک والی۔ اس کے علاوہ اس کی ناگوار بدبُِو کو دور کرنے کے لئے کئی قسم کی فلیورڈ نسوار بھی میدان میں آچکی ہے تاکہ منہ اور سانسوں میں جو بدبو پیدا ہوتی ہے وہ خوشبو کے جھونکوں میں تبدیل ہو جائے۔ اب اس سرکاری پابندی والے حکمنامہ کی وجہ سے خیبر پی کے میں کہیں نسوار پسند عوام اسے بنیادی حقوق میں مداخلت قرار دیتے ہوئے حکومت کیخلاف ایجی ٹیشن نہ شروع کر دیں اور جینا ہو گا مرنا ہو گا۔ نسوار تیرے سنگ دھرنا ہو گا کہتے ہوئے سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔
٭٭٭٭٭
دنیا میں توہین عدالت کا کوئی قانون ہے نہ میں چپ رہوں گا۔ جاوید ہاشمی
زمانہ طالب علمی سے ہی ہاشمی صاحب کو بولنے کا ایسا چسکا لگا ہے کہ اب اس عمر میں بھی جب غالب بھی
گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے۔
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
کہنے پر مجبور ہو گئے۔ ہاشمی صاحب بھی چپ نہ رہنے پر مجبور ہیں۔ ویسے جس شخص کو اس کے فن خطابت کی وجہ سے ہر سیاسی جماعت ہاتھوں ہاتھ لیتی ہو۔ اس کو چپ کرانا واقعی مشکل کام ہے۔ ہاشمی صاحب خود بھی جہاندیدہ ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی چکے ہیں۔ ماسوائے پیپلزپارٹی کے ہر بڑی جماعت میں گئے اور وہاں چوٹی کے رہنما تصور کئے جاتے تھے۔ اب اگر یہ ان جماعتوں کی چٹیا کاٹ کر ہاتھ میں لیتے پھرتے ہیں تو سب کو ٹینشن لگی ہو گی۔ پیپلزپارٹی سے تو انہیں شروع دن سے ہی خدا واسطے کا بیر ہے۔ اب اگر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ دنیا میں کوئی توہین عدالت کا قانون نہیں تو اس بات سے اختلاف کرنے والے لاکھوں لوگ ملیں گے۔ ان سے پہلے بھی جس جس نے اس بارے میں لب کشائی کی بہت جلد انہیں لب سینے کے معنی سمجھ میں آ گئے۔ جو کام توہین عدالت کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے اس کے لئے ایسا کیوں کرنا کہ عدالت کو حرکت میں آنا پڑے اور جوابی کارروائی میں ہاشمی صاحب کو بھی پتہ چل جائے کہ توہین عدالت کا قانون ناصرف موجود ہے بلکہ اس پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے۔ اس لئے وہ ایسے بیانات سے گریز ہی کریں تو اچھا ہے اوراس عمر میں آ بیل مجھے مار والے بیانات سے پرہیز رکھیں!