ایک صدی بیت گئی کامل 100 برس پہلے لاکھوں نوجوانوں کا لہو پینے کے بعد یہ خون آشام دیوی‘ جنگ عظیم اوّل نومبر 1918 میں ختم ہوگئی تھی
افسوس صد افسوس، یہ جنگ اختتام برائے نام تھااور دنیا میں آج بھی عالمی قوتیں باہم برسرپیکار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اب وہ یہ جنگیں اپنی سرحدوں پر نہیں افغانستان، عراق، شام میں لڑتی ہیں اور مظلوم مسلمان نشانہ بنتے ہیں۔پیرس میں جنگ بندی کی سب سے بڑی تقریب منعقد ہوئی‘ لاکھوں بے گناہوں کے خونِ ناحق کی یاد منائی گئی جنگ عظیم اول کو سوسال پورے ہوگئے۔ فرانس کے نوجوان صدر نے دنیا کے رہنمائوں کوتشویش کے ساتھ یاد دلایا ہے کہ قومیت پرستی انسانیت کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں ’حب الوطنی‘ کو فروغ دیاجائے۔ امن کے لئے کام کیاجائے۔ سوسال گزر گئے عالمی رہنماؤں نے قومیت پرستی کو انسانی سماج اور تہذیب کے لئے زہر قاتل قرار دیا ہے۔
کاش یہ سلسلہ تکبر اور غرور کے خاتمے، رعونت کو دفن کرنے، غربت، غلامی مٹانے، علم کے فروغ کی صورت میں نکلتا، مظلوموں کو انصاف دلانے کی حمایت‘ عزم اور تحریک برپا کرنے کے اعلان کی شکل میں ظہورپزیر ہوتا۔ محرومیاں ختم کرنے کا کوئی اتحاد وجود میں آتا۔
امریکی صدر ٹرمپ، روسی ہم منصب پیوٹن سمیت دنیا کے 70 رہنما فرانس کے دارالحکومت پیرس میں نامعلوم فوجی کی یادگار پر جمع ہوئے۔ سخت سرد موسم میں بارش کے دوران عالمی رہنما سیاہ چھتریاں تھامے، ماضی کے سبق کو یاد کررہے تھے۔ امن کی شمع جلانے پر مشاورت کرتے پائے گئے۔ اس موقع پر ان رہنمائوں نے مارچ بھی کیا۔فرانس کے نوجوان صدر ایمانئیول میخواں کی میزبانی میں یہ رہنما موجود تھے۔ بدمزاج ڈونلڈ ٹرمپ بھی پہنچا ہواہے۔ اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کی وزیراعظم تھریسا مے کے علاوہ ملکہ ایلزبتھ نے بھی لندن میں بطور خاص الگ سے منعقدہ تقاریب میں شرکت کی۔ نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا نے بھی الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا۔
بیلجئیم اور فرانس کا دریا کہلانے والے ’اوئیس‘ کے کنارے آباد کومپین، فرانسیسی شہر کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وحشت خیز جنگ عظیم اول کے اختتام کے معاہدے پر یہاں دستخط ہوئے۔ فرانس کے صدر میخواں اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل کی اس مقام پر ٹھیک ایک سوسال بعد ایک تصویر پوری دنیا کے میڈیا نے شائع کی۔ جنگل نما اس علاقہ کو دیکھ کر پوری تاریخ نظروں کے سامنے گھوم گئی۔
1918ء کے گیارھویں مہینے کے گیارھویں دن کے گیارھویں گھنٹے میں جنگ عظیم اول ختم ہوئی تھی۔ صبح پانچ بجے کومپین شہر کے باہر ’ریل روڈ کار‘ یعنی ٹرین کے ڈبے میں یہ معاہدہ ہوا تھا۔کہتے ہیں ہلاکت خیز جنگ عظیم اول کا آغاز قوم پرستی سے ہوا تھا۔ 28 جولائی1914 کو شروع ہوکر 11 نومبر 1918تک 4 برس جاری رہنے والی اس قیامت صغری میں سات کروڑ فوجیوں نے حصہ لیا۔ چھ کروڑ یورپی اس میں شامل تھے۔
یہ تاریخ کی سب سے بڑی جنگ کہلائی جس میں 90 لاکھ جنگجو اور 70 لاکھ عام افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ دوکروڑ دس لاکھ سے زائد زخمی ہوئے۔ جرمنی، روس، آسٹریا، ہنگری، فرانس اور برطانیہ میں سے ہر ایک کو دس لاکھ افراد کی قربانی کا نقصان اٹھانا پڑا۔ پچاس لاکھ سے زائد عام شہری مختلف بیماریوں، بھوک اور بْرے حالات کی بھینٹ چڑھ کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔جنگ کا آغاز کیوں ہوا؟ اس کا جواب بڑا دلچسپ ہے۔پڑھتے جائیں تو حیرتوں کے سمندر میں اترتے جاتے ہیں۔
28 جون1914ء کو ’گاوریلو پرنسیپ‘ نامی شخص نے ’آرچ ڈیوک فرانز فرڈیننڈ‘ کو سارڑیوو میں اس کی بیوی شہزادی سوفی چیٹک کے ہمراہ قتل کردیا تھا۔ اس کی بیوی کا تعلق آسٹریا سے تھا۔ فرانز فرڈیننڈ اپنی سلطنت کا ولی عہد تھا اور سربیا کے قوم پرستوں سے خطرات کے باوجود اس علاقے میں اپنے انکل شاہ فرانز جوزف کی شاہی افواج کے معائینے کے لئے آیا تھا۔ قاتل گاوریلو پرنسیپ ’نوجوان سربیا‘ نامی تنظیم کا رکن تھا جو آسٹروہنگیرین مشترکہ سلطنت کے بوسنیا ہرزگوینا پر اقتدار کے خاتمے کے لئے برسرپیکار تھی۔
’آسٹروہنگیرین سلطنت‘ آسٹریا اور ہنگری کی بادشاہتوں کاملاپ تھا جو 1867ء میں دونوں کے سمجھوتے سے تشکیل پائی تھی۔ اس میں ایک خودمختار خطہ ’کنگڈم آف کروشیا سلوینیا‘ یعنی کروشیا سلوینیا کی سلطنت بھی شامل تھی۔ ’ہائوس آف ہیبزبرگ‘ یورپ کے ممتازترین شاہی خاندانوں میں شمار ہوتا تھا جو ’مقدس رومن سلطنت‘ کا متولی تصورہوتا تھا۔ فرانز فرڈیننڈ اسی سلطنت کا ولی عہد تھا۔ لہذا یہ محض ایک ولی عہد کا قتل نہیں تھا بلکہ یورپ اور رومن پس منظر کا علم رکھنے والوں کو اس کی مزید گہرائی کا پتہ دیتا ہے۔
اس قتل کے نتیجے میں ’جولائی بحران‘ پیدا ہوا۔ 23 جولائی کو آسڑیا اور ہنگری نے سربیا کو الٹی میٹم جاری کردیا۔ سربیا تسلی بخش جواب نہ دے سکا تو یہ معاملہ جنگی انداز میں ڈھل گیا۔ یہ معاملہ مختلف اتحادیوں کی تشکیل پر منتج ہوا۔1914ء تک یورپ کی بڑی طاقتیں دو حصوں میں بٹ چکی تھیں۔ ایک طرف فرانس، روس اور برطانیہ تھے تودوسری جانب جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور اٹلی تھے۔ روس نے اپنے مفادات کی خاطر سربیا کی حمایت کی۔ آسٹریا ہنگری نے 28 جولائی کو سربیا کے دارالحکومت بلغراد پر گولہ باری کی۔ 30 جولائی کو روس نے اپنی افواج کی نقل وحرکت شروع کردی جس کے جواب میں آسٹریا، ہنگری اور جرمنی نے بھی ترکی بہ ترکی عمل کیا۔ جرمنی نے روس سے مطالبہ کیا کہ وہ افواج کی نقل وحرکت واپس لے۔ مطالبے پر عمل نہ ہونے پر جرمنی نے یکم اگست کو جنگ کا اعلان کردیا۔ فرانس نے دو اگست کو روس کی حمایت میں اپنی فوج کو مکمل نقل وحرکت کا حکم دے دیا۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے نت نئے محاذ کھولے گئے اور ترکی بھی اس لپیٹ میں آگیا۔ یہ سلسلہ پھر بڑھتا ہی چلاگیا۔
1917ء میں روس میں انقلاب بْلاوشیک کی آڑ میں کیمونسٹوں نے روس میں اقتدار حاصل کرلیا اور جرمنی کے ساتھ امن معاہدہ پر مذاکرات کی داغ بیل ڈالی۔ اس جنگ کا پانسہ مغربی محاذ پر امریکی افواج اور وسائل کی شمولیت سے بدل گیا۔ جرمنی نے گیارہ نومبر 1918ء کو اتحادیوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔ جنگ عظیم اول کو ’تمام جنگوں کے اختتام کی جنگ‘ کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے۔ لیکن اس پیش گوئی کا انجام ’ورسیلس معاہدہ‘ کی صورت میں جرمنی کو سزا دینے کے اقدامات کی صورت جب ظاہر ہوا تو یورپ عدم استحکام کا شکار ہوگیا اور پھر جنگ عظیم دوئم کی شکل میں ایک اور خونیں تاریخ لکھی گئی۔
فرانس میں جنگ بندی کی سب سے بڑی تقریب ’آرک دی ٹرائیمف‘ پر ہوئی جس کی تعمیر کی خواہش 1806ء میں نیپولین نے کی تھی اور اس کا افتتاح 1836میں فرانس کے شاہ لوئیس فلپ نے کیا تھا۔ اس تعمیر کو انقلابی افواج اور 1921ء میں نامعلوم سپاہی کی اس کی بنیاد میں تدفین کی بنائ پر خاص اہمیت حاصل ہے۔ نامعلوم سپاہی کی یاد میں ہر روز شام ساڑھے چھے بجے یہاں شمع جلائی جاتی ہے۔
فرانس کے صدر ایمانئیویل میخواں نے اس تقریب سے خطاب میں نظریاتی گفتگو کرتے ہوئے قومیت کے جدیدتصور کو خطرناک قرار دے دیا۔ انہوں نے حب الوطنی کے حق میں دلائل دئیے اور اسکے مقابلے میں قومیت کو خطرہ قرار دیا۔ جرمن چانسلر اینجلا مارکل نے کہا کہ اس دن کو محض ایک یاددہانی کے طورپر نہیں منانا چاہئے بلکہ یہ دن ہم سے اقدامات کا متقاضی ہے۔اس تقریب میں سکول کے بچوں نے آٹھ زبانوں میں تحریرکردہ سپاہیوں کا پیغام سنایا۔
فرانس کے صدر ایمائنیول میخواں نے حالیہ انٹرویو میں یورپ کی اجتماعی فوج کی بات کی ہے اور امریکہ کو روس اور چین سے نتھی کرتے ہوئے قومی سلامتی کے لئے خطرہ بتایا ہے۔دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ قومیت کے حامی ہیں اور اس ضمن میں ان کے خیالات پر مبنی شہہ سرخیاں اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔
فرڈیننڈ کو قتل کرنے والا بھی ایک قوم کا ہیرو قرار پایا۔ اگرچہ ولی عہد اور اس کی ملکہ کو قتل کیاتھا لیکن پھربھی اس کو پھانسی نہیں ہوسکی کیونکہ جرم کے ارتکاب کے وقت اس کی عمر 19سال تھی اور قتل پر سزائے موت کے لئے کم ازکم عمر بیس مقرر تھی۔ لہذا اس نوجوان کو سخت ترین حالات میں کال کوٹھڑی میں عمرقید گزارنی پڑی جہاں وہ اذیت ناک حالات میں ٹی بی کا شکار ہوکر مرگیا۔
حکومت نے اس خدشے کی بناء پر اس کا بھوک اور بیماری سے پنجرہ بن جانے والا وجود نامعلوم مقام پر دفنادیا کہ اس کے چاہنے والے بعدازاں ان ہڈیوں کو نکال کر علامت بنادیں گے۔ حکومت کی کوشش کے باوجود بعد میں جس سپاہی نے تدفین کی تھی، اس کی ہی نشاندہی پر گاوریلو کی قبر مل گئی اور اس کی ہڈیاں نکال کر سارڑیو لائی گئیں۔ جس پستول سے اس نے فرڈیننڈ اور اس کی بیوی پر فائر کیاتھا، وہ ویانا میوزیم میں اب بھی محفوظ ہیں، فرڈیننڈ کی وہ خون آلود وردی بھی وہاں موجود ہے جو قتل کے وقت اس نے پہن رکھی تھی۔
فرانس میں سوسالہ تقریب میں امن کی خواہش جس انداز میں کی گئی تو معاہدہ ورسیلیس کی یاد تازہ ہوگئی جس کے نتیجے میں جنگ عظیم اول کے بعد جنگ عظیم دوئم شروع ہوگئی تھی۔ یورپ اور امریکہ کی سوچ میں واضح اختلاف تو اپنی جگہ ہے لیکن دنیا میں امن کے قیام کے لئے عالمی اداروں، مہذب بالخصوص طاقتور ممالک کی جانبداری، مظلوم کے مقابلے میں ظالموں کی سرپرستی سے امن کی شمع جلانا محض ایک اخباری واقعہ تو ہوسکتا ہے، حقیقی امن کا پیش خیمہ ہرگز نہیں۔ نظریات کی بنیاد ہی غلط ہو تو رہنمائی نہیں، گمراہی اورجہالت ہی پھیلتی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024