ڈی جی نیب سلیم شہزاد کی ڈگری کے متعلق میڈیا میں بڑے زور و شور سے بحث جاری ہے۔ موصوف کا پرزوراصرار ہے کہ اُنکی ڈگری ہر لحاظ سے درست اور حقیقی ہے ۔ لہٰذا کسی ذاتی تعصب کے بغیر شعبہ تعلیم سے دیرینہ وابستگی کی بنیاد پر میرا یہ فرض ہے کہ میں اپنے قارئین کو اندرون ملک ا ور بیرون ملک تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے متعلق حقائق سے آگاہ کروں کہ کیسے معلوم ہو کہ اُن کے بچے جن اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہاں سے اُنہیں ایسی ڈگری مل رہی ہے جو قانوناً درست ہے یا نہیں۔ جب پاکستان بنا تو اکثر لوگ پرنٹنگ پریس سے کسی بھی یونیورسٹی یا تعلیمی بورڈ کی نقلی سند بنا لیتے اور کوشش کرتے کہ اس کی بنیاد پر پرائیویٹ سیکٹر یا کسی دوسرے ملک میں نوکری حاصل کر لیں لہٰذا ہمارے ہاں آج بھی غیررجسٹرڈ اداروں سے ہزاروں لوگ غیر قانونی سرٹیفکیٹس اور سندیں حاصل کر کے مشرق وسطیٰ میں ملازمتیں حاصل کر رہے ہیں، مگر جب اِن ڈگریوں کو ریاستی اداروں نے چیک کرنا شروع کیا تو پھر لوگوں نے بورڈ اور یونیورسٹی کے ملازمین کو رشوتیں دے کر سند اور ڈگریاں حاصل کرنی شروع کر دیں۔ آج بھی پرانے افسران اور اعلیٰ اداروں کے ملازمین کے پاس بورڈ ا ور یونیورسٹیوں کی حقیقی ڈگریاں موجود ہیں لیکن اگر کوئی ان کی ڈگریوں کو چیلنج کرے تو متعلقہ یونیورسٹیوں اور بورڈز کے پاس ان کا ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ جنرل مجید ملک مرحوم کے ایک الیکشن میں یہ کہہ کر کاغذات نامزدگی مسترد ہو گئے کہ اُن کا 1945ء میں میٹرک کی سند کے متعلق ریکارڈ دستیاب نہیں تھا۔ پاکستان میں ایک صاحب اقبال، پلڑ بڑی دیدہ دلیری سے ڈگریوں کا کاروبار کرتے تھے۔ وہ جب بھی پکڑے جاتے اور اُنہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا تو وہ رہا ہو جاتے۔ اُن سے کسی نے پوچھاآپ جب بھی جعلی ڈگریوں کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں تو رہا کیسے ہو جاتے ہیں تو موصوف نے بڑا تاریخی جواب دیا۔ ’’عدلیہ اور انتظامیہ میں فیصلے کرنیوالے اعلیٰ افسران میری یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ ہوتے ہیں۔‘‘ ’’لہٰذا جب آپ کسی کی ڈگری کے متعلق معلوم کرنا چاہیں گے تو آپ کو جعلی اوراصلی ڈگری، قانونی اورغیر قانونی مصدقہ یا غیر مصدقہ، مساوی یا غیر مساوی کے معاملات کا بھی جائزہ لینا ہوتا ہے وگرنہ ایگزیکٹ کی طرح پوری دنیا میں غیر مصدقہ یونیورسٹیاں لوگوں کو آن لائن ڈگریاں جاری کر دیتی ہیں۔ ہمارے ایک مشہورمذہبی اینکر پرسن ہیں۔اُنہوں نے فلپائن کی ایک آن لائن یونیورسٹی سے اسلامی علوم میں غیر مصدقہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک قانون دان نے امریکہ کی ایک ایسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔ جس کاسرے سے کوئی وجود نہیں ہے۔ اِس ملک میں جعلی ڈگریوں کو بڑھاوا دینے میں اِس ملک کے ایچ ای سی (ہائرایجوکیشن کمشن) کے کچھ لوگوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ ایک ادارہ ایچ ای سی کے قوانین کے مطابق کام کر رہا ہوتا ہے مگر اُس کے سب کیمپس میں داخلہ لینے والوں کی ڈگریوں کے قانونی اور غیر قانونی ہونے پر سوال اُٹھتے ہیں۔ ان غیر معیاری یونیورسٹیوں کی ڈگریوں کو تو نیب اصلی قرار دیتی ہے مگر جب بہائوالدین زکریا یونیورسٹی اور سرگودھا یونیورسٹی پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت لاہور میں تمام سہولتوں سے آراستہ کیمپس قائم کر تے ہیں تو انہیں دس سال بعد غیر قانونی قرار دے کر ڈاکٹر اکرم چودھری اور ڈاکٹر علقمہ جیسے نیک نام وائس چانسلروں کو نیب گرفتار کر لیتی ہے۔ آج بہت سی پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیاں ایسے کورس بھی کروا رہی ہیں جن کی ڈگریاں درست ہیں مگر اسلامی یونیورسٹی اور قائد اعظم یونیورسٹی جیسے اداروں میں بعض ایسے پروگرام بھی چل رہے ہوتے ہیں جو متعلقہ پیشہ وارانہ کونسلیں تسلیم نہیں کرتی ہیں آئے دن سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات اس بات پر احتجاج کر رہے ہوتے ہیں کہ اُن کی متعلقہ ڈگری، بار کونسل، فارمیسی کونسل اورانجینئرنگ کونسل تسلیم نہیںکر رہی ہے۔ بعض طالب علم غیر ملکی لندن یونیورسٹی کے کیمپس سے تین سال کا قانون کاامتحان پاس کرتے ہیں اور وہ یونیورسٹی میں داخلہ A لیول یا ایف اے کے امتحان کے بعد حاصل کرتے ہیں۔ اب جبکہ پاکستان میں ایف اے کے بعد پانچ سال کی قانون کی ڈگری ہے تو اُس کے مساوی A لیول کرنے کے بعد کچھ طالب علم تین سال کی قانون کی ڈگری حاصل کر رہے ہیں۔ یہی حال ہمارے میڈیکل کالجز کا ہے ہمارے ارباب بست و کشاد کی اکثریت بلوچستان اور اندرون سندھ کے ڈومیسائل کی بنیاد پر بیوروکریسی اور جوڈیشری میں اعلیٰ عہدوں پر پہنچ گئے ہیں۔ اکثر کی اُس دور کی پیشہ وارانہ ڈگریاں آج کے معیار پر جا نچی جائیں تو وہ غیر معیاری ہونگی۔ آج پرانے لوگوں کی اکثریت کی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں سافٹ وئیر میں ڈالی جائیں تو معلوم ہو گا کہ اُن میں بہت زیادہ مسروقہ مواد ہے۔ ایک ایچ ای سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے Ph.D کے تھیسز میں غیر مسروقہ مواد ہے تو ایک پرانے چیئرمین صاحب نے ایک ہی وقت میں پی ایچ ڈی اور M.B.A کیا ہوا تھا اورساتھ ہی موصوف ریگولر نوکری بھی کر رہے تھے لہٰذا جعلی یونیورسٹی کی تمام طرح کی ڈگریوں کا جائزہ لینا ہے تو پھر اس کا آغاز بھی وزیراعظم، صدر اور دوسرے اعلیٰ ریاستی اداروں کے سربراہان سے ہونا چاہئے۔ ہمارے اکثر میڈیکل، انجینئرنگ اور سیاستدانوں کے پاس باہر کی یونیورسٹیوں کے سرٹیفائیڈ کورسز ہوتے ہیں تو وہ یہاں اُنہیں ڈگریاں ظاہر کرتے ہیں۔ مگر یہ پاکستان ہے جہاں جعلی اور غیر قانونی ڈگریوں والے ترقی کر کے اعلیٰ مناصب پر پہنچ جائیں اور جینوئن ڈگریاں رکھنے والے ماہرین تعلیم کو ہتھکڑیاں لگا دیں۔ ویسے بھی آج جینوئن ڈگریاں رکھنے والوں کو کونسی نوکریاں مل رہی ہیں۔ پی ایچ ڈی والے مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ایچ ای سی جیسے اداروں کی ملک کوکوئی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ کی طرح مارکیٹ اوپن کر دیں۔ آپ کے پاس ڈگری ہو یا نہ ہو آپ کی ویلیو آپ کے ہنر پر ہوتی ہے۔ اس لئے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے کہا تھا ڈگری ڈگری ہوتی ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے اصلی ہے یا نقلی۔ !!
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024