میرا گائوں فیصل آباد، جڑانوالہ روڈ پر 20 کلو میٹر کے فاصلے پر بائیں جانب 2 کلو میٹر برانچ روڈ پر ہے۔ یہ دو کلو میٹر برانچ روڈ اسقدر تنگ اور خستہ حال ہے کہ کار یا ٹیکسی پر جانا جان جوکھوں میں ڈالنا ہے۔ دیہات کی غریب عورتیں اور بوڑھے مرد جب تانگوں اور رکشوں پر سفر کرتے ہیں تو ان کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ خاص طور پر حاملہ خواتین کے لئے یہ دو کلو میٹر کا سفر بہت تکلیف دہ ہے۔
میرے گائوں میں بھی پنجاب کے بعض دوسرے دیہات کی طرح انگریز دور میں جانوروں کو پانی پلانے کے لئے 4 تالاب بنائے گئے تھے جو دیہاتی کونوں پر تھے اب وہ جوہڑ مچھروں کی افزائش گاہیں بن چکے ہیں۔ وہ تالاب جو کبھی نہر کے صاف پانی سے بھرے رہتے تھے اب بدبودار گارا۔ گھاس، کائی اور گھروں کے گندے پانیوں سے اٹے رہتے ہیں۔ راقم نے کئی بار اعلیٰ افسروں اور صوبائی انتظامیہ کو باور کرایا کہ ان چار جوہڑوں میں مٹی ڈال کر پارک بنا دیئے جائیں۔ سبز للن اور کیاریوں میں پھول لگا دیئے جائیں۔ اس سے دیہاتیوں کی شہروں کی طرف نقل مکانی کم ہو جائے گی۔ اور بچوں کی کھیل کود اور بوڑھوں کی چہل قدمی کے لئے جگہ بن جائے گی۔ لیکن سب نے ان سنی کر دی۔
میرے گائوں کے ساتھ ایک بڑا سیم نالا بہتاہے۔ اس میں جڑانوالہ کھڑریانوالہ سے فیصل آباد تک جتنی ملیں اور فیکٹریاں لگی ہیں ان کا گندا اور زہر آلود فضلات اسیم نالے میں بہا دیئے جاتے ہیں۔چند سال پہلے اس نالے میں عموماً صاف پانی بہتا تھا۔ اور اس میں مچھلی، مرغابی، تیتر، wood cock وغیرہ کناروں پر تیرتے نظر آتے تھے۔ اب وہاں سوائے گہرے نیلے زہر آلود اور بدبو دار پانی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔میرے گائوں میں 12 تا 16 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی رہی ہے۔ کسان اپنی بساط سے باہر بجلی کے بل ادا کرتا رہا۔ دیہات میں گرمیوں میں جا کر رہنا محال تھا۔ کسان اور اسکے بچے یا تو ننگے پائوں نظر آئیں گے بہتر حالات میں فلائی چپل پہنی ہوگی۔ ان کے بچے کھادی بوروں کا لباس بھی پہنتے ہیں۔ اس لئے کہ بھاری زرعی ٹیکسوں، لگانوں اور مہنگائی نے انہیں کنگال کر دیا ہے۔
میں نے DEO ایجوکیشن سے ملاقات کی اور کہا کہ ’’مہربانی فرما کر میرے گائوں کا سکول میٹرک تک کر دیں۔یہ سکول 100 سال سے پانچویں جماعت تک چلا آ رہا ہے۔ ‘‘ DEO صاحب میرے گائوں تشریف لائے سکول کے معائنہ پر گئے۔ واپسی پر بتایا کہ گائوں کا سکول میٹرک تک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے کہ دیہاتی غربت کی وجہ سے بچوں تعلیم نہیں دلوا سکتے۔ وہ بچوں سے عموماً مزدوری کرواتے ہیں۔ سکول میں حاضری بہت کم ہے۔ اس وقت خیال آیا کہ امیروں کے بچے انتہائی مہنگے سکولوں، کالجوں، لندن اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ملکی کسانوں کی مالی حالت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ وہ دیہاتی سکولوں میں بھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے۔پچھلے ہفتے والد محترم میاں عبدالباری کے سالانہ ختم پر مجھے گائوں جانا پڑا۔ وہاں ساتھ والے دیہاتوں سے بھی کسان آئے ہوئے تھے۔ ان کا واویلا سن کر میں گھبرا گیا۔ سب یک زبان ہو کر کہہ رہے تھے ’’ہمارا کوئی والی وارث نہ رہا۔ کوئی ہماری فریاد نہیں سنتا۔ ہم برباد ہو گئے۔‘‘
کسانوں کی چیخ و پکار اختصار سے بیان کرتا ہوں۔ (1 بعض شوگر ملیں گنے کی قیمتیں ادا نہیں کرتیں۔ بعض دیر سے ادا کرتی ہیں۔ گنے کی قیمتیں اربوں روپوں بھی ہو جائیں تو مالکان ملز ملیں دور دراز ضلعوں میں لے جاتے ہیں۔ (2 کھادیں بہت مہنگی کر دی گئی ہیں۔ سپرے کے لئے ادویات نا خالص ملتی ہیں۔ زرعی ادویات بے حساب کمپنیاں سپلائی کرتی ہیں۔ ناخالص ادویات کی کسان کو پہچان نہیں اس لئے کہ کسان ان پڑھ ہے۔ محکمہ زراعت ان کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ (3 دیہاتوں میں زرعی لیبر نہیں ملتی۔ دیہاتی نوجوان ملوں، فیکٹریوں، ورکشاپوں اور شہری ہسپتالوں اور محکموں میں چلے گئے۔ (4 زرعی مشینری اور آلات بہت مہنگے۔ (5 کمر توڑ زرعی لگان اور کئی گنا بڑھائے گئے زرعی ٹیکسز ۔ (6 ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔
ماہر زراعت سردار محمد اسلم لکھیرا لکھتے ہیں ’’ ایوب ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں کبھی کسان کے لئے مختلف اقسام کا بیج تیار کیا جاتا تھا۔ SA-73 گندم کے بیج سے فی ایکڑ 70 من گندم نکلا کرتی تھی۔ اسی طرح گنے اور کپاس کا ایسا بیج دریافت ہوا تھا اب ایوب ریسرچ کو فنڈ ہی نہیں دیئے جاتے جس کی وجہ سے کوئی نیا بیج کسی اقسام کی پیداوار فی ایکڑ بڑھانے کے لئے دستیاب نہیں۔
زرعی ٹیکسوں کی تفصیل ملاحظہ ہو۔ (1 آبیانہ (نہری یا ٹیوب ویل پانیوں پر ٹیکس آبیانہ پچھلے دس سالوں میں سات سو گنا بڑھایا جا چکا ہے۔ یہ ٹیکس صرف پنجابی کسان پر لاگو ہے (2 مالیہ (3 عشر (4 لوکل ریٹ ٹیکس (5 ایڈیشنل لوکل ریٹ (6 پیشہ ورانہ ٹیکس (7 محصول ٹیکس (8 ٹال ٹیکس (9 ترقی ٹیکس (10 ضلع ٹیکس (11 باغ ٹیکس یہ ٹیکس اسی دن سے لگ جاتا جس دن پھل کا پودا لگایا جاتا ہے (12 چوکیدار (13 زرعی مشینری ٹیکس (14 اقراء ٹیوب ویل بجلی پر ایڈیشنل سر چارج (15 سنٹرل ایکسائز ڈیوٹی (16 رجسٹری فیس (17 ود ہولڈنگ ٹیکس (18 سیلز ٹیکس (19 آڑھت ٹیکس (20 روڈ ٹیکس (21 چولہا ٹیکس (22 دولت یا ویلتھ ٹیکس (23 مالکانہ ٹیکس جو ایک مربعہ سے ہر چھوٹے بڑے کاشتکار پر فلیٹ ریٹ پر نافذ کیا گیا (24 نمبرداری ٹیکس (25 منڈی مویشیاں پر فی جانور ٹیکس (26 زرعی ٹیکس جو معین قریشی دور میں ہر چھوٹے بڑے کسان پر فلیٹ ریٹ پر نافذ کیا گیا۔
اس طرح کسان تقریباً 26 اقسام کے زرعی ٹیکس ہر چھ ماہ بعد ادا کرتا ہے۔ چند سو یا ہزار کا زرعی لگان وقت پر ادا نہ کرنے پر تحصیلدار کسان کو تحصیل جیل میں بند کر سکتا ہے۔ خیال آیا کہ ہمارے لیڈر اور حکمران اور بعض اعلیٰ افسر اپنے بچوں کے ذریعے پانامہ میں کئی کمپنیوں کے ذریعے صرف ٹیکسز بچانے کے لئے اربوں کے کاروبار کر رہے ہیں اور وطن عزیز میں کسان کے بیٹے بے بہا زرعی ٹیکسوں اور لگانوں سے بچنے کے لئے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ کیسی بے انصافی ہے۔ اس ملک میں زراعت جو اس دھرتی کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسکا آئندہ سالوں میں کیا حشر ہونے والا ہے۔
سردار محمد اسلم سکھیرا لکھتے ہیں ’’پتوکی شوگر مل ہے جو کسی نے خرید لی ہے۔ ان ملوں نے اب یہ کام شروع کیا ہے کہ گنا زمیندار سے خریدتی ہیں لیکن کاشتکاروں کو قیمت ادا نہیں کرتیں۔ جب ادائیگی اربوں تک ہو جاتی ہے تو مل مالکان ان ملوں کو حکومت کی اجازت کے بغیر دور دراز اضلاع میں لے جاتے ہیں۔ یوں کسانوں کے اربوں ڈکار جاتے ہیں۔
آج پاکستان خصوصاً پنجابی کسان کی جو حالت زار ہے بعینیہ ہی ایسی صورت حال میں نے ٹائم میگزین میں شمالی کوریا اور رونڈا کے کسانوں کی پڑھی تھی۔ ملاحظہ ہو۔
شمالی کوریا اور رونڈا (افریقہ) میں زراعت ایک وجہ سے تباہ ہوئی وہاں ایسا قحط پڑا کہ ذرائع ابلاغ پر ان کے درد ناک مناظر دکھائے جاتے رہے۔ راونڈا میں وجہ خانہ جنگی بھی تھی لیکن اصلی وجہ بھاری لگان تھے۔ ان لگانوں کی وجہ سے دہقان زمینیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ شمالی کوریا میں کسان بچوں کے جسم غذائیت کی وجہ سے پنجر بن چکے تھے وہ گھاس اور جڑی بوٹیاں کھانے پر مجبور ہوئے۔ شمالی کوریا کے کسان جسمانی طور پر اتنے کمزور ہو گئے کہ وہ کھیتی باڑی نہیں کر سکتے تھے۔ نہ وہ کوئی فصل لگا سکتے تھے۔
یوں لگتا ہے کہ اب خدا نخواستہ اب پنجابی کاشتکار کی باری ہے۔ اندھا دھند زرعی ٹیکسوں کے نفاذ سے اسکی غربت و افلاس میں مزید اضافہ ہو گا۔ آج مجھے اپنے گائوں میں کسانوں اور دیہاتیوں میں سوائے مایوسی، اداسی، پریشانی اور خوف کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان کے دن پھیر دے تا کہ میں پرانے وقتوں کی طرح ان کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ سکوں۔
٭…٭…٭…٭…٭…٭