تمام دنیا کے قلمکار، اشاعتی ادارے، الیکٹرانک میڈیا گزشتہ کم از کم ایک ماہ سے امریکہ کے انتخابات میں مصروف رہے، امریکہ کے انتخابات میں کامیاب امیدوار کی پالیسیاں دنیا بھر میں امریکہ کے اپنے مفادات پر مبنی ہوتی ہیں، وہ ممالک جو اپنی رائے رکھتے ہیں وہ کسی امریکی امیدوار کے خلاف بول بھی پڑتے ہیں، ان کے بولنے کی وجہ بھی یہ ہی ہوتی ہے کہ اس کامیاب صدر یا امیدوار کی پالیسیوں کو اپنے ملک کے مفادات اور ضروریات پر تولتے ہیں پھر بولتے ہیں۔ میرا ملک پاکستان تو اپنی پیدائش کے بعد سے ہی امریکی پالیسیوں کے مرہون منت ہیں اس لئے ہم ان میں سے نہیںہو سکتے جو کسی امریکہ صدر کی پالیسیوں پر بہت کھل کر اظہار خیال کر سکیں، امریکہ کے موجودہ نومنتخب ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ہمارے مسلمانوں کے اعتبار سے قابل اعتراض نعروں، پالیسیوں، انتخابی نعروں کے باوجود ہم نے ایک سعادت مند بچے کی طرح فوری نومنتخب صدر کو مبارکباد بھیج دی، یہ غلط نہیں ہے چونکہ ہمارے سیاست دان جانتے ہیں کہ انتخابی نعرے کچھ اور ہوتے ہیں اور اقتدار کی ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔ ہم نے بھی اپنے ملک کے انتخابات کے دوران بہت کچھ سنا ہے، خاص طور پر کرپشن کے حوالے سے ہر پارٹی نے نعرے لگائے کرپٹ لوگوںکو کیفرکردار تک پہنچانے کے مگر تمام پارٹیاں ان کرپٹ لوگوں کے حوالے سے خودکفیل ہیں۔ رہا سوال ٹرمپ کی حکومت آنے کے بعد وہ کہے گا کہ تمام پالیسیاں امریکی مفادات کو پیش نظر رکھ کر بنانا ہونگی، مسلمانوں کے خلاف دوران مہم لگائے جانے والے نعروںکی اب کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ٹرمپ کی ویب سائٹ سے اسلام اور مسلمان دشمن مواد ہٹایا جا چکا ہے اس سے ثابت ہوا کہ وہ صرف نعرے ہی تھے چونکہ دونوں امیدواروں کی مہم میں پیسہ، افرادی قوت تمام ہی یہودی لابی کا تھا، پاکستان کے متعلق پالیسیوں کے حوالے سے ہلیری کلنٹن بہ حیثیت سیکرٹری خارجہ جو کچھ کہہ چکی تھیں اسے شائد ہم بھول رہے ہیں ان سے پاکستان کے دورے کے دوران جب پوچھا گیا تھا کہ ”آپ یا امریکہ ڈو مور کے مطالبے پاکستان سے کیوں کرتا ہے“ ہلیری کا بہت سیدھا جواب تھا ”ہم سے مدد نہ لیں، جب ہم مدد دینگے تو مطالبہ بھی کرینگے۔“ یہ پالیسی پاکستان کے متعلق امریکہ کی بہت واضح پالیسی ہے۔ اگر ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں، امریکی ایجنٹ ہونے میں فخر محسوس کرنا بند کر دیں تو پھر ہمیں حق حاصل ہو گا کہ ہم امریکہ کی پالیسیوں کو دنیا کے لئے اچھا یا برا کہیں۔ اگر اسلامی بلاک کمزوری کا شکار ہو گا تو یہودی پالیسیاں مضبوط ہونگی اور ہمارے لئے یقینی طور پر نقصان دہ ہونگی۔ دنیا کی صورتحال کی وجہ سے یقینی طور امریکہ کی پالیسیاں گزشتہ پالیسیوں سے مختلف ہونگی۔ ہمارے لئے اشد ضروری ہے کہ پاک چائنا دوستی کو مضبوط سے مضبوط تر کریں، اپنے دیرینہ دوست اور برادر ملک سعودی عرب کو اعتماد میں رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کریں، چین سے پاکستان کی دوستی پاکستان کی معیشت میں ایک سنگ میل ہے اسے قائم رکھیں کیونکہ اس پر حملہ غیر ممالک کی جانب سے براہ راست نہیں بلکہ ہمارے اندرونی لوگوں کی طرف سے ملک میں پھیلی ہوئی افراتفری کی ایک وجہ اس دوستی اور ان پراجیکٹ کو نقصان پہنچانے کیلئے ہے، کرپشن بہت ہو چکی ہے، ہم اس وجہ سے دنیا میں بھی بدنام ہیں سپریم کورٹ اور مضبوط ادارے اس پر سخت قانون کے تحت فوری ایکشن لیں یہ ہی ہماری بقاءہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024