عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ جناب اسفند یار خان ولی نے 10 نومبر کو اسلام آبادمیں کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان کے بارے میں آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز پر تبصرہ کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ”پہلے باہر سے "Do More" کی آوازیں آتی تھیں، اب اندر سے آتی ہیں“۔ جنرل راحیل شریف کے خطاب کا خاص نُکتہ یہ تھا کہ ”دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے آپریشن ضرب اُلعضب کے اچھے نتائج کو دیرپا بنانے کے لئے اتنی ہی بہتر "Governance" ( حکومت/ طرزِ حُکمرانی بھی ضروری ہے“۔
جناب اسفند یار خان نے مختلف اوقات میں امریکہ کی طرف سے اپنی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے پاکستان کے حکمرانوں پر دباﺅ ڈالنے کے لئے "Do More" (مزید کچھ کرو) کے حُکم کے حوالے سے بات کی ہے۔ جب کوئی حکمران یہ حُکم ماننے سے انکار کر دیتا تو وائٹ ہاﺅس کا مکِین اُسے اقتدار کے رنگ محل سے نِکلوا دیتا تھا۔ مرزا غالب جب کوچہ¿ یار سے نکلوائے گئے تو انہوں نے گِلہ کِیا تھا کہ....
” بہت بے آبرُو ہو کر، تیرے کُوچے سے ہم نکِلے“
لیکن امریکہ کی شہ پر پاکستان میں تاحیات حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں میں سے اکثر زندہ درگور ہوگئے۔ ایک جلاوطن ہو کر لندن گیا اور مرنے کے بعد ایران کے شہر ”مشہد“ میں دفن ہُوا۔ دوسرے کو پھانسی ہُوئی، تیسرا ہوائی حادثے میں مارا گیا، میاں نواز شریف واحد حُکمران ہیں جو جلا وطنی کی زندگی گزار کر تیسری بار وزارتِ عُظمیٰ کے جُھولے جُھول رہے ہیں لیکن فی الحال انہیں سمجھ نہیںآ رہی کہ صدر مسلم لیگ اور وزیراعظم پاکستان کی دونوں کُرسیوں پر بیٹھ کر قائدِاعظم کے پاکستان میں جمہوریت اور خاص طور پر ”جمہور“ کی بقا کے لئے کیا کریں؟
9 اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے امیدوار جناب ایاز صادق ”بِلامقابلہ“ قومی اسمبلی کے سپیکر منتخب نہیں ہو سکے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو اپنے امیدوار جناب شفقت محمود کی شکست کا یقین تھا لیکن حکومتی پارٹی، اُس کے اتحادیوں اور اپنی اپنی پیشانیوں پر ”جمہوریت بچاﺅ“ کے "Stickers" سجائے حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے ”مِنت ترلا“ کئے جانے کے باوجود عمران خان نے اپنے امیدوار کو انتخاب سے دستبردار کرنے سے انکار کر دِیا۔ وزیراعظم نواز شریف کو اپنی ”حکومت اور جمہوریت“ بچانے کے لئے نہ صِرف اپنی اتحادی سیاسی جماعتوں اور ظاہری طور پر حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اب جناب ایاز صادق کی حمایت کر نے والی کئی دوسری جماعتوںکی طرف سے بھی "Do Something" اور "Do More" کی آوازیں سُنائی دیںگی۔
سابق صدر زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے لیڈروں سیّد یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، مخدوم امین فہیم اور کئی دوسروںکے خلاف قومی دولت لوٹنے اور دوسری قِسم کی کرپشن کے مقدمات زیر التواءہیں۔ اُن کا فیصلہ اِس لئے نہیں ہو سکا کہ ”جمہوریت کے تسلسل “ کے لئے مسلم لیگ ن کی حکومت کو اِن مقدمات کی پیروی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف عام جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ ”مَیں آصف زرداری سے لوٹی ہُوئی قومی دولت واپس لینے کے لئے اُنہیں سڑکوں پر گھسیٹوں گا“۔ پھر جنابِ وزیراعظم نے برادرِ خورد کو منع کر دِیا اور خادمِ اعلیٰ اپنی تقریروں کو سجانے کے لئے پُرانے اور نئے شعروں کی تلاش میں کہیں دُور نِکل گئے۔
آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز پر میاںنواز شریف اور اُن کی حکومت کو پاک فوج کے خلاف ”ہلاشیری“ پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے دی۔ مقصد صِرف ایک ہی ہے کہ ” ہمارے صاحب اور ساتھیوں کے لئے بھی "Do More"۔ اگر میاںصاحب کی حکومت چلی جائے تو پیپلز پارٹی کا کیا نقصان ہوگا؟ جناب آصف زرداری دبئی میں مستقل قیام کرلیں گے اور پارٹی کے امیر ترین عہدیداروں کووہاں بُلا کر مشاورت کر لیں گے۔ جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ءکومیاںنواز شریف کی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کِیا تو جنابِ آصف زرداری جیل میں تھے اور انہوں نے قیدیوں میں کئی من مٹھائی تقسیم کرائی تھی۔
13 نومبر کو سینٹ آف پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کی محترمہ شیری رحمن کی تحریکِ التواءکے جواب میں وزیر خزانہ جناب محمد اسحاق ڈار نے انکشاف کِیا کہ ” آپریشن ضرب اُلعضب میں 9.1 ارب ڈالر خرچ ہُوئے۔ دوست ممالک وعدہ کرتے ہیں، دیتے کچھ نہیں ۔ وفاقی حکومت نے دو کے سوا باقی تمام 32 خفیہ اداروںکے سیکریٹ فنڈز بند کر دئیے ہیں۔ ملک کو بحران سے نکالنے کے لئے اپوزیشن حکومت سے ” میثاقِ مُعیشت“ کر لے“۔ سوال یہ ہے کہ ”دوست ممالک“ نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے آپریشن ضرب اُلعضب میں تعاون کا وعدہ کر کے ہاتھ کِیوں روک لِیا؟ اِس میں ”دوست ممالک“ کا قصور ہے یا ہماری حکومت اپنی سفارتکاری/ مِنت تَرلے سے اُنہیں قائل ہی نہیں کرسکی۔
گذشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ ” وزیراعظم میاں نواز شریف اچھی کارکردگی نہ دکھانے پر وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار کے سوِا وزارتِ خزانہ کے تمام اعلیٰ افسروں کو تبدیل کر رہے ہیں“۔ ممکن ہے کہ یہ تمام افسران ” دوست ممالک“ سے "Do More" کا مطالبہ منظور کرانے میں ناکام رہے ہوں؟ اب بھلا اِس میںجناب ڈار کا کیا قصور؟ اگر ہمارا کوئی"Full Fledged" وزیر خارجہ ہوتا تو شاید وہ ”دوست ممالک“ کو راضی کر لیتا۔ اب کیاکِیا جائے کہ جناب سرتاج عزیز کے دائیں ہاتھ پر ” پکّے وزیرِ خارجہ“ کی لکیر ہی نہیںہے۔
لندن میںمحترمہ بے نظیر بھٹو اور میاںنواز شریف میں ”میثاق جمہوریت“ کا تو پاکستان کے ”جمہور“ کو بعد میں پتہ چلا کہ ”اب پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن باری باری حکومت کریں گی“ لیکن جنابِ ڈار نے ”اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کے ”میثاقِ معیشت“ کے بارے میں وضاحت نہیں کی۔ دراصل عِلم معاشیات سے نابلد ”عوام کالانعام “ کو اِس ترکیب کی سمجھ نہیں آئے گی۔ وہ تو ”مِیثاقِ مُعیشت “ سے یہی سمجھیں گے کہ ”بالائی سطح پر جمہوری تسلسل کے لئے مختلف اُلنظریات سیاسی جماعتوں میں ہونے والا ایسا معاہدہ جِس کے مطابق اقتدار میں آ کر لُوٹ مار کرنے اور ملکی مُعیشت کو تباہ کرنے والی سابقہ سیاسی جماعت کو اُس کے بعد کی حکومتی پارٹی کچھ نہ کہے“۔
عام طور پر بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ ”بدترین جمہوریت بھی بہترین جمہوریت سے اچھی ہوتی ہے لیکن جمہور کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ وطنِ عزیز میں بہترین جمہوریت کب آئے گی؟ اور کون لائے گا؟ 6 فروری 2014ءکو جناب عمران خان نے (شاید مایوسی کے عالم میں) کہا تھا کہ ملک میں جعلی جمہوریت اور جعلی آمریت رہی ہے۔ اگر کوئی اچھا ڈکٹیٹر ہی مِل جاتا تو عوام کا بھلا ہو جاتا اور ملک ترقی کر جاتا۔ شاید وہ لوگ بھی جِن کے گھروں میں چولہا نہیں جلتا، جو اپنے بیمار بوڑھے والدین کا علاج نہیں کرا سکتے، بچوںکو تعلیم نہیں دِلوا سکتے اور جِن کے پاس اپنی جوان بہنوں اور بیٹیوں کی شادی کے لئے وسائل نہیں ہیں وہ کب تک بہترین جمہوریت یا اچھے ڈکٹیٹر کا انتظار کریں گے؟ کیا حکمرانوں اور دوسرے سیاستدانوںکو مفلوک اُلحال، خستہ تن، بے روزگار اور بیمار لوگوں کی آوازیں سُنائی نہیں دِیتیں؟ ضرب اُلعضب اور پاک فوج کو متنازع نہ بنائیں اور کان بند نہ کریں۔ جب تک عوام کے لئے کچھ نہیں کِیا جائے گا، آوازیں تو آتی رہیں گی۔