آج سے 47سال پہلے جنرل ضیا الحق کے مارشل لا میں آج کے دن یعنی 13 مئی 1978کو آزادی صحافت کی تحریک کے دوران لاہور میں روزنامہ مساوات کے باہر سے چار اخبار نویسوں جناب خاور نعیم ہاشمی۔۔۔جناب ناصر زیدی۔۔۔۔جناب اقبال جعفری اور جناب مسعود اللہ خان کو گرفتار کرکے فوجی عدالت میں پیش کیا گیا اور پھر اول الذکر تین صحافیوں کو قید کے ساتھ کوڑوں کی سزا سنائی جبکہ جناب مسعود اللہ خان بیماری کے باعث کوڑوں سے چھوٹ مل گئی لیکن قید انہیں بھی بھگتنا پڑی۔۔۔۔مسعود اللہ خان کے علاؤہ باقی تینوں صحافی حیات ہیں۔۔۔۔خان صاحب پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر جناب راجہ اورنگزیب کے ہم زلف تھے۔۔۔۔اس طرح وہ عہد ساز صحافی جناب شفقت تنویر مرزا کے بھی عزیز بنے کیونکہ شفقت صاحب راجہ صاحب کے بہنوئی تھے۔۔۔۔تینوں ہی کیا باکمال صحافی تھے۔۔۔۔باوقار اور ایمان دار۔۔۔۔۔۔!!!لاہور پریس کلب میں آج پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے زیر اہتمام یوم عزم کے عنوان سے سیمینار ہوا جبکہ ایک نجی تنظیم "آمور انٹرنیشنل" نے صحافیوں کو ایوارڈز بھی دہے۔۔۔۔لاہور پریس کلب کے صدر جناب ارشد انصاری۔۔۔سیکرٹری جناب زاہد عابد۔۔۔محترمہ صائمہ نواز۔۔۔۔۔پی یو جے صدر جناب نعیم حنیف اور جناب رانا خالد قمر کے علاوہ خاکسار نے بھی اظہار خیال کیا کہ کچھ مہربانوں کی مہربانی سے ایوارڈز کی فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا۔۔۔۔میں نے اپنی کم مائیگی کو تسلیم کرتے کہا کہ مجھ میں شاید ایک ہی خوبی ہے کہ مجھے جناب طاہر پرویز بٹ۔۔۔جناب راجہ اورنگزیب۔۔۔ جناب خالد۔ چودھری اور بخت گیر چودھری کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔۔۔۔لاہور پریس کلب کے نثار عثمانی ہال میں بیٹھے میں ماضی میں کھو گیا۔۔۔۔جناب راجہ اورنگزیب اور جناب خالد چودھری ٹوٹ یاد آئے۔۔۔۔۔۔اللہ کریم ان کی قبروں کو منور کرے۔۔۔۔۔کراچی میں آسودہ خاک پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق صدر جناب احفاظ الرحمان نے آزادی صحافت کی اس تحریک کو آزادی صحافت کی سب سے بڑی جنگ کے عنوان سے کتاب کی صورت شائع کرکے تاریخ کا حصہ بنادیا۔۔۔انہوں نے کتاب کا انتساب جناب منہاج برنا اور اس تحریک کے سارے ساتھیوں کے نام کیا۔۔۔۔کتاب کا ایک باب جناب راجہ اورنگزیب نے بھی لکھا جبکہ شہباز انور خان نے ان کی معاونت کی۔۔۔جناب احفاظ الرحمان کی نظم پھر قلم کتاب کی جیت ہوئی بھی کتاب کا حسن ہے:کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے
وہ خالی ہاتھوں والے تھے
وہ خالی جیبوں والے تھے
جو پرچم لے کے نکلے تھے
کچھ پھول اگانے نکلے تھے
وہ روشن خوابوں والے تھے
جو رات کے کالے ماتھے پر
خورشید اگانے نکلے تھے
خالی ہاتھوں کی جیت ہوئی
خالی جیبوں کی جیت ہوئی
حاکم کا مان ہوا رسوا۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر قلم کتاب کی جیت ہوئی
یادش بخیر۔۔۔دو ہزار تین میں کراچی کے صحافتی قیام کے دوران جناب خالد چودھری کے ساتھ کراچی پریس کلب میں جناب احفاظ الرحمان سے دو ملاقاتیں کبھی نہیں بھولیں گی۔۔۔۔کیا ہی نفیس آدمی تھے۔۔۔۔جناب خاور نعیم ہاشمی نے آزادی صحافت کی تحریک میں لاہور پریس کلب کے کردار کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور بتایا کہ تب لاہور پریس کلب دیال سنگھ مینشن میں تھا اور اس کے دروازے صحافیوں کے لیے بند کر دیے گئے اور پھر اس تحریک کے دوران لاہور پریس کلب خانہ بدوشوں کی طرح کبھی کہیں تو کبھی کہیں،شہر کی 15 جگہوں پر قیام پذیر رہا۔۔۔۔خاور نعیم ہاشمی نے بتایا کہ انہوں نے 7جیلیں کاٹیں اور 3 مرتبہ شاہی قلعہ بھگتا۔۔۔شاہی قلعے سے یاد آیا کہ جناب خالد چودھری بھی شاہی قلعے کے مہمان رہے اور ان پر 500بموں کی برآمدگی کا مقدمہ بنادیا گیا اور غالبا یہ کیس جناب اعتزاز احسن نے لڑا۔۔۔۔جناب خاور نعیم ہاشمی نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حیدر آباد جیل میں قید کے دوران وہ نمک کی ڈلی چوس اور امرود کے پتے کھا کر زندگی جیے۔۔۔۔جناب خاور نعیم ہاشمی نے باور کرایا کہ جنرل ضیا الحق کی قہر آلود آمریت میں آزادی صحافت کی سب بڑی جنگ اس لیے فتح سے ہم کنار ہوئی کہ تب 90 فیصد صحافی یک جان دو قالب تھے۔۔۔آج بھی آزادی صحافت کا مقدمہ جیتنا ہے تو متحد ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔!!!
پھر قلم کتاب کی جیت ہوئی۔!!!!
May 15, 2025