وقار ملک کا ایس ایم ظفر کے ساتھ ’’مکالمہ‘‘
وہ مکالمہ جو جناب ایس ایم ظفر اور ڈاکٹر وقار ملک کے درمیان کم و بیش پچیس برس جاری رہا، مختلف مجلوں اور جریدوںمیں شائع ہوتا اور دلچسپی سے پڑھا جاتا رہا، اب کتابی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ جس طرح ایس ایم ظفر اپنی مثال آپ ہیں، اْسی طرح وقار ملک بھی منفرد اور ممتاز ہیں۔ انہیں مختلف موضوعات پر سوال اْٹھانے کا جو ملکہ حاصل ہے، وہ بہت کم میڈیا پرسنز کو نصیب ہوا ہوگا۔ پاکستان کے کئی ممتاز اہل دانش کے ساتھ ان کا مکالمہ رہا ہے لیکن ایس ایم ظفر کے ساتھ جس تسلسل سے ان کی ملاقاتیں جاری رہیں، یہ کسی اور کے ساتھ ممکن نہیں ہوا۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کی ’’عادت‘‘ سی ہو گئی۔ ایک دوسرے کا اسلوب ایسا بھایا کہ بات سے بات نکلتی چلی گئی، ملاقاتیں جاری رہیں اور سینکڑوں صفحات مرتب ہو گئے۔ پاکستان کی تاریخ، سیاست، عدالت اور ثقافت کے بارے میں شاید ہی کوئی سوال ایسا ہوگا جو وقار ملک نے پوچھا نہ ہو اور اْس کا جواب حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ کی ہو۔ ایس ایم ظفر بہت ممتاز، بلکہ ممتاز تر قانون دان تو ہیں ہی، سیاست سے بھی اپنے آپ کو دور نہیں رکھ سکے۔ تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں، کئی کتابوں کے مصنف ہیں، ان کے مطالعے اور مشاہدے کی وسعتیں ماپی نہیں جا سکتیں۔ قومی زندگی پر انکے خیالات و اقدامات نے (بعض اوقات) گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انکی اجتہادی بصیرت نے انہیں انفرادی شان بخشتی ہے۔ وہ مشکل میں گھبراتے نہیں ہیں۔ راستہ بنانے اور سفر جاری رکھنے کی تدبیر کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ وہ مزاحمت کے نہیں مفاہمت کے آدمی ہیں ’’جہاد‘‘ نہیں اجتہاد کے قائل ہیں کہ قانون اور سیاست کے میدان میں اجتہاد ہی کو جہاد کہا اور سمجھا جانا چاہیے۔ پاکستان کے اہل سیاست اور اہل دانش میںایسے افراد کی کمی نہیں جو مسائل کی قوالی کرنے کو کمال سمجھتے ہیں، اپنے الفاظ کی قوالی (یاجگالی) کرتے چلے جاتے ہیںاور اْلجھائو میں اضافہ کرنے کو شجاعت اور استقامت کا نام دے بیٹھتے ہیں۔ اس ماحول کو اگر ایس ایم ظفر یکسر تبدیل نہیں کر سکے تو بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری، اسلوب نہیں بدلا، نعرہ بازوںمیں اپنا نام نہیں لکھوایا۔ تدبیر اور تدبر کا سکہ ان کی ٹکسال میں ڈھلتا چلا گیا ہے، وقار ملک نے اس سکے کا ایک بڑا ذخیرہ محفوظ کر دیا ہے۔ میں جس ایس ایم ظفر کو جانتا ہوں یقینا کم لوگ اس سے واقف ہوں گے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میری ایس ایم ظفر صاحب سے پہلی ملاقات 36برس قبل دسمبر 1986ء میں ان کے مال روڈ والے لاء چیمبرمیں ہوئی۔ سخت سردی کے موسم میں جب میں ان کے آفس میں داخل ہوا تو ظفر صاحب کالے پینٹ کوٹ میں ملبوس ٹیبل لیمپ کی روشنی میں لائ کی کتب کا بنظرِ عمیق مطالعہ کرنے میں مصروف تھے۔کمرے کاہیٹر آن تھا جس کی وجہ سے باہر کے سخت سرد موسم کے مقابلے میں کمرے کا ماحول گرم اور پْرسکون تھا۔میرا خیال ہے کہ مجھے ایس ایم ظفر کی اور ایس ایم ظفر کو میری ’’عادت‘‘ سی ہوگئی اور اگر کسی وجہ سے میری ایس ایم ظفر صاحب سے ملاقات میں تاخیر ہوگئی تو انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں فون کرتے ہوئے کہا۔ وقار ملک کہاں غائب ہیں؟ کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہورہی۔ ظفر صاحب جس محبت سے بلاتے خواہ کتنی ہی مجبوری ہوتی ساری مصروفیات چھوڑ نی پڑتیں۔ میرے لیے یہ امر انتہائی اطمینان بخش ہے کہ ان سیکڑوںملاقاتوں میں کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں کہ جب میری ایس ایم ظفر صاحب سے کبھی مس انڈر سٹینڈنگ ہوئی ہو یا کبھی انہیں یہ شکایت پیدا ہوئی ہو کہ میں نے انٹرویو میں یہ بات کہی تھی اور اخبار میں یہ کیا چھپ گیا۔ ایک روز ایس ایم ظفر کہنے لگے ، ’’جو لوگ دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں وہ سبھی غیر معمولی انسان نہیں ہوتے البتہ ان سب میں ایک خوبی ضرور ہوتی ہے انہیں ٹائم مینجمنٹ کا فن آتا ہے۔ جو شخص ٹائم ضائع کرتا ہے وہ بظاہر ٹائم ضائع کرتا ہے جب کہ حقیقت میں وہ سب کچھ ضائع کررہا ہوتا ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’جب سے میں نے شعور کی آنکھ کھولی ہے تب سے لے کر زندگی کے موجودہ ایام تک میں نے کبھی وقت ضائع کرنے کا تصور بھی نہیں کیا۔ ہمیشہ وقت کے بہتر سے بہتر استعمال کے لیے کچھ سوچتا رہتا ہوں۔‘‘ ایس ایم ظفر اپنے دوستوں اور عزیزوں کے غم اور خوشی میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر شریک ہونے والی شخصیت ہیں۔ وہ اپنی تمام تر مصروفیت کے باوجود نہ صرف ہر کسی کے غم میں شریک ہوتے بلکہ خوشی میں شامل ہو کر دلی خوشی محسوس کرتے رہے ہیں مگر کبھی کسی دوست کو اپنی ’’اہمیت‘‘ کا احساس نہیں دلایا۔ ان سے کئی ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا اور یہ رفاقت دوستی میں بدلتی چلی گئی۔ محترم ظفر صاحب سے ملنا میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی اور پھر قرابت داری تو زندگی کا سرمایہ بن گئی اور انمٹ نقوش بھی چھوڑ گئی۔میں نے ظفر صاحب کو کبھی کسی سے اْلجھتے نہیں دیکھا۔ کسی کو ڈانٹتے نہیں دیکھا۔ نہ کبھی انہوں نے کسی بھی بندے کو اس کے چھوٹے پن کا احساس دلایا۔ ایک بڑی ہی دلبرانہ اور فلسفیانہ مسکراہٹ ان کے چہرے پر رہتی ہے۔ سرزنش کا انداز بھی بڑا عارفانہ ہے۔مجھے تو یوں لگتا ہے ان کے پاس اْمیدوں کا ایک عطر ہے اور راستہ دکھانے والی روشنی ہے۔ جب بھی ان سے مل کر آئیں عطر کی خوشبو مشامِ جاں کو روشنی عطا کرتی ہے اور جی چاہتا ہے ہم بھی کچھ کر دکھائیں۔