پاکستان کو سری لنکا مت بنا ئیں !

گزشتہ ہفتے دنیا بھر میں مدرز ڈے منایا گیاجبکہ اگر انسان والدین کی خدمت و ثمرات کا صرف تصور ہی کر لے تو کوئی ایک دن ہی مدر ڈے اور فادر ڈے تفویض کرنے کی بجائے اپنی حیات ان کی خدمت اور تعظیم میں گزارنے کو اوڑھنا بچھونا بنا لے مگرکیا کیا جائے کہ ہم مغرب کی نقالی کو مثالی ترقی سمجھتے ہوئے اپنا جداگانہ اور کامیاب تشخص ہی دائو پر لگا بیٹھے ہیںجس کا ہمیں احساس تک نہیں ۔ویسے ہم میں اور ان میں ایک چیز میں تو مماثلت ہے کہ وہ اپنے والدین کو اولڈیج ہومز میں چھوڑ آتے ہیں اور بھلا دیتے ہیں اوریہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری ارض پاک ہماری دھرتی ماں ہے جس نے بے شمار مائوں کو اپنی پناہ میں لے رکھا ہے اور اس لحاظ سے اس دھرتی ماں کی عزت ،وقار ،اہمیت اور عظمت سب مائوں سے بڑھ کر ہے۔لیکن ہم نے اس طرح دھرتی ماں کومفاد پرست اور لالچی سربراہوں کوسونپ دیا اور بھول بیٹھے ہیں توجب ہم اس عظیم دھرتی ماں کی ساکھ لٹنے سے نہیں بچا سکتے پھر ہمیں یہ بھی حق نہیں کہ ہم جنم دینے والی ماں کے خدمت گار اور تعظیم کرنے والے کہلا سکیں جو کہ ہمارا یہ وطیرہ انتہائی احسان فراموشی اور نا واجب ہے ۔جس نے ہمیں پناہ، پہچان او ر آزادی دی اس کا امن و امان اور سالمیت خطرے میں ہے اورہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ میری اس دھرتی ماں کے سینے پر اقتدار کے پجاریوں نے من مرضیوں کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ جن کو پڑھ کر روح لرز جا تی ہے مگر یہ سب کچھ اپنے اندر چھپا گئی کیونکہ ماں اور دھرتی ماں میں یہی خوبی ہے کہ ماں بچے اور زمانے کے سارے اچھے برے رازوں کو اپنے دل میں چھپا لیتی ہے کبھی کسی کو بچے کی لغزشوں کا احساس بھی نہیں ہونے دیتی اور دھرتی ماں ہر قسم کا گند اپنے اندر جذب کر کے ہمارے لیے پھول ،پھل اور اناج پیدا کرتی ہے تو ماں جیسے اپنی اولاد کے ساتھ اور دھرتی ماں جیسے عوام کے ساتھ مخلص ہے تو ہم ایسے ہی اس کے ساتھ مخلص کیوں نہیں ہیں ؟میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں جو ماں سے وفادار نہیں وہ کسی کا وفادار نہیں ہو سکتا !اس دھرتی ماں پر جوبھی برسر اقتدار آیاا اس نے اسے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھاتے یہ بھی نہ سوچا کہ اس کے دریائوں میں آبائو اجداد کا لہو بہاہے، اس کی ہوائوں میں لٹی ،کٹی ،پھٹی مائوں بہنوں کی سسکیاں شامل ہیں اس کے جھرنوں میں معصوم بچوں کی آہ و فغاں ہے اس کاہرذرہ گواہ ہے ،بے گناہ جانوں کے ضیاع اور بے مثال قربانیوں کا جو اس کے حصول کے لیے دی گئیں تھیں۔
قارئین کرام ! میں آج جو کچھ بھی ہوںاپنے ماں باپ کی دعاوں سے ہوں ،میں نے پہلا لفظ جو لکھا وہ میری ماں نے ہاتھ پکڑ کر لکھوایا تھا اورجو پہلا لفظ بولا اس کا تلفظ میرے والدمحترم نے درست کیا پھر جب بھی قلم چلا ہے میری ماں کی دعا اور حوصلہ ہمیشہ ساتھ رہا ہے میری ماں نے مجھے ہر قدم پر دعا دی اور درست سمت سفر کرنے کا فہم دیا اور میری دھرتی ماں نے مجھے پہچان دی کہ میں پاکستان کی وہ بیٹی ہوں جو آج اپنے قلم کے ذریعے دھرتی ماں کی دشمن قوتوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار لے چکا ہے تو امتحاں ہمارا !
میں کسی سیاسی پارٹی یا تنظیم کی دشمن نہیںہوں، نہ میں کسی بیو روکریٹ یا سیاستدان کی بیٹی ہوں اور نہ میرا کسی سے کوئی ذاتی اختلاف ہے میں اس دھرتی کی بیٹی ہوں میرا ہر لفظ اس کی بقا کے لیے ہے۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا میری دھرتی جو کہ اس وقت اغیار کی مذموم نگاہوں میں ہے اس کو ایسے نازک دور میں کسی بھی قسم کا کوئی ایڈوینچر نہیں چاہیئے لیکن ہماری آنکھیں تب کھلتی ہیں جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے۔میرا مئوقف آج بھی وہی ہے کہ دھرنوں ،جلسے ، جلوسوں اوراقتدار سے سیاست تو چمکائی جا سکتی ہے مگر دھرتی ماں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا سوا ئے اس کے حالات مزیدکشیدگی اختیار کر لیں گے لہذاذمہ داران کو مل بیٹھ کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیئے کیونکہ ہمیں نہ تغیر چاہیئے ،نہ کوئی نام نہاد محب وطن ، دھرتی ماں کو اس مردِ قلندر کی ضرورت ہے جو امن کا پیامبر بنے جو اس بکھری مالا کو ایک لڑی میں پرو دے جو اس خونریزی اور ہوس پرستی کا قلع قمع کر دے۔ ایک ایسا مردِ آہن جس کی رہبری عمر فاروق ؓ کے عہد کی یاد تازہ کردے ہمیں ضروت ہے محمد بن قاسم جیسے بہادر کی جس کی مردانگی اور بہا دری سے کفر کے ایوان لرز اٹھیں میری مائوں اور میری دھرتی ماں کے تحفظ کی ضمانت اغراض و مفاد کے نشے میں چور بازو نہیں دے سکتے!
سچ تو یہ ہے کہ حرص و طمع ، نسلی فخرو غروراور قانون و انصاف کی غیر منصفانہ تقسیم نے ہمارے معاشرے کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے جب تک ہم احکام الہی اور سیرت النبیؐ کے مطابق زندگیوں کو نہیں ڈھالیں گے تب تک مشکلات کا شکار رہیں گے یقینا نالائق آدمیوں کی منصوبہ بندیوں نے امن و خوشحالی کو برباد کر دیا ہے لیکن وطن عزیز مزید بربادیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔۔اس وقت گڈ گورننس کا فقدان اور معاشی بحران ایک ایسی خوفناک جنگ کی شکل اختیار کر رہا ہے جس سے اس وقت سری لنکا نبرد آزماہے اور پی ٹی آئی قیادت نے خونیں ہنگاموں کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیںکہ دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں اور عوام کو پاسبانوں کے خلاف بھڑکایا جارہا ہے جبکہ ایک طرف تھر اور چولستان میں پیاس سے انسان اور ڈھور ڈنگر تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں تو دوسری طرف گندم ،دودھ اور سبزی دال کی قیمتیں ناجائز حد تک بڑھ چکی ہیں بایں وجہ عوام کے غم و غصے میں ہر دن اضافہ ہورہا ہے درحقیقت اب کوئی نہیں سننا چاہتا کہ کس نے کتنا لوٹا اور کون بڑا لٹیرا ہے بلکہ اب بس روٹی کی جنگ ہے اور یاد رہے کہ دنیا میں ہونے والی سبھی جنگوں کی وجہ بالواسطہ یا بلا واسطہ روٹی ہی تھی اس لیے ذمہ داران کو چاہیے کہ دھرتی ماں کی ساکھ ،سالمیت اور خوشحالی کے لیے مفاداتی جنگ سے نکل کر عوامی فلاح و بہبود کے لیے ترجیحاتی بنیادوں پر کام کریں اور پاکستان کو سری لنکا مت بنائیں ۔۔